اب کشف کے دعوے سے پورے خدا ہوگئے اور آسمان وزمین کے قلابے ملادئیے۔ یہ سب کچھ ہوا مگر محمدی کی آرزو میں اور مولوی ثناء اﷲ صاحب اور ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کی موت کی تمنا میں مرگئے۔ مگر یہاں نہ خدائی اختیارات کام آئے۔ نہ کشفی خدائی نے مطلب برآری کی اور دنیا سے نامراد گئے اور دنیا کے نزدیک قرآن مجیدکے نصوص قطعیہ کے بموجب جھوٹے قرار پائے،۔ ان کی کبروتعلّی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے تمام انبیائے کرام کی سخت توہین کی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے کبر میں بدمست ہوکر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ موجب تخلیق عالم میں ہوں۔ (حقیقت الوحی ص۹۹، خزائن ج۲۲ ص۱۰۲) میرے طفیل سے تمام انبیائے کرام اور اولیائے عظام اور ساری مخلوق پیدا ہوئی اور یہ مراتب علیا تمام انبیاء اور اولیاء کو میرے وسیلہ اور میرے طفیل سے ملے۔ حضرت سرور انبیاء محمد مصطفیﷺ بھی اس میں داخل ہیں اور انہیں بھی یہ مدعی اپنا طفیلی بتاتا ہے اور سچے مسلمانوں کے دلوں کو پاش پاش کرتا ہے۔ یہ دعویٰ ایسا ہے کہ کوئی چمار معززین اسلام اور بادشاہ اسلام کے مقابلہ میں یہ کہے کہ یہ سب ہمارے طفیلی ہیں۔ ہماری وجہ سے انہیں یہ عزت اور بادشاہت ملی ہے۔ اب خیال کیا جائے کہ یہ ادنیٰ چمار اسلام اور تمام معززین اسلام کی کس قدر توہین کرتا ہے اور کیسی سخت سزا کا مستحق ہے۔ اب وہ مرزائی جو یہ کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کو جناب رسول اﷲﷺ کے واسطہ سے نبوت ملی ہے۔ وہ اپنے مرشد کے اس دعویٰ کو دیکھیں کہ تمہارا مرشد تو تمہارے خلاف کہہ رہا ہے۔ اب یہ بتاؤ کہ تم جھوٹے ہو یا تمہارے مرشد کا الہام جھوٹا ہے۔ یہ تو ایک دعویٰ کے ضمن میں تمام انبیائے کرام اور اولیائے عظام کی تحقیر تھی۔ اب علانیہ توہین اور تذلیل ملاحظہ ہو۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت یہ لکھا ہے کہ: ’’ان کے پاس سوائے مکروفریب کے کچھ نہ تھا اور حق بات یہ ہے کہ ان سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶،۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰،۲۹۱) اس کا نتیجہ ضرور یہ ہے کہ قرآن مجید میں جو انہیں ’’وجیہاً فی الدنیا والآخرۃ‘‘ کہا ہے اور انہیں مقربین میں فرمایا ہے اور ان کے معجزات بیان کئے ہیں۔ وہ سب غلط ہیں۔ اس علانیہ انکار کے بعد اگر باتیں بنائی جائیں تو محض فریب کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ انبیاء کی تحقیر کسی طرح جائز نہیں ہے۔ وہ (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام) مسمریزم کے ذریعہ سے اور تالاب کی مٹی سے کچھ علاج کیا کرتے تھے۔ انکا اعجاز کچھ نہیں تھا۔ ان کی نانیاں اور دادیاں کسبی اور زناکار عورتیں تھیں اور وہ کسبیوں اور کنجریوں سے میل جول بہت رکھتے تھے۔ ان سے تیل ملواتے تھے اور ان نامحرموں کو چھوتے تھے۔ (نعوذ باﷲ) یہ سب باتیں حضرت مسیح کی مذمت میں بیان کر کے لکھتے