۱۱… پھر یہ دعویٰ کیا کہ میں مستقل نبی ہوں۔ صاحب شریعت ہوں۔
۱۲… یہ بھی دعویٰ ہے کہ نوح ہوں، ابراہیم ہوں، موسیٰ ہوں۔ یہاں تک جوش جنون ہوا کہ کہہ دیا منم محمد واحمد کہ مجتبیٰ باشد۔ یعنی جو مرتبہ ان انبیاء کا ہے۔ وہ میرا بھی ہے۔ اس برابری دکھانے کے لئے انہوں نے اور بھی الہامات بیان کئے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ:
۱۳… مقام محمود کا مستحق میں ہوں۔ یہ بات اکثر اہل اسلام جانتے ہیں کہ جناب رسول اﷲﷺ قیامت کے روز مقام محمود میں کھڑے ہوکر گنہگاروں کی شفاعت کریں گے۔ مگر مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ اس مقام کا مستحق میں ہوں۔
برادران اسلام غور کریں کہ جس نے دنیا میں آکر کسی جہنمی کو مستحق جنت نہیں بنایا اور چالیس کروڑ مسلمانوں کو جہنم کا مستحق کر دیا۔ اس کے منہ پر یہ دعویٰ زیب دیتا ہے کہ میں قیامت کے روز مقام محمود میں کھڑا ہوکر شفاعت کروں گا۔ (استغفراﷲ) یہ بھی دعویٰ ہے کہ میں معصوم ہوں۔ سبحان اﷲ جس کے سینکڑوں جھوٹ علانیہ چھپے ہوئے موجود ہوں۔ اس بے شرم کو معصوم ہونے کا دعویٰ ہو۔ یہ بھی دعویٰ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے رحمتہ للعالمین مجھے بنایا ہے۔ یعنی سارے جہاں کے لئے میں رحمت ہوں۔ یہ صفت خاص حضرت سرور انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہے۔ اب چونکہ مرزاقادیانی حضورانورﷺ کی برابری ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے یہ الہام اوتارا۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ ان کے دوسرے الہامات اس کو غلط بتارہے ہیں۔ کیونکہ پہلے تو ان کا مقولہ تھا کہ کوئی کلمہ گو کافر نہیں ہے۔ پھر یہ کہا کہ جو مجھے نہیں مانتا وہ جہنمی ہے، کافر ہے۔ اب آپ کے ماننے والوں میں نہ کوئی جماعت یہود ونصاریٰ کی ہے نہ ہنود آریہ کی صرف چند ہزار یا بقول مرزائیوں کے چند لاکھ مسلمان انہیں مان گئے ہیں۔ اب مرزائی رحمت کا نتیجہ ملاحظہ کیجئے کہ تمام کفار کی جماعتیں جو پہلے سے جہنم کی مستحق تھیں۔ وہ اسی حال پر رہیں۔ اہل اسلام کی جماعت چالیس کروڑ تھی۔ جو مرزاقادیانی کے پہلے قول کے بموجب سب جنت کے مستحق تھے۔ ان میں کوئی کافر نہ تھا۔ مگر مرزائی رحمت نے یہ جوش مارا کہ بجز دوچار لاکھ کے سب کو جہنم میں دھکیل دیا۔ یہ تو آخرت کے لئے رحمت ہوئی۔ اب دنیا کی رحمت دیکھئے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت یعنی جب سے مرزاقادیانی کا دعویٰ شروع ہوا۔ اس وقت سے جس قدر بلائیں۔
طاعون کی، قحط کی، ملریا وغیرہ امراض عامہ مخلوق خدا پر آرہے ہیں۔ یہ سب مرزاقادیانی کے نہ ماننے کا طفیل ہے۔ مگر لطف یہ ہے کہ ان کے ماننے والے بھی شریک ہیں۔ ان