رچایا۔ بلکہ اسلام اور خود سلطنت مغلیہ سے غداری کی۔ جس کا انکشاف اور اعتراف وہ اپنی اس درخواست میں کرتے ہیں۔ جو انہوں نے ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء کو لیفٹیننٹ گورنر برطانیہ کے نام لکھی: ’’میرا اس درخواست سے جو حضور کی خدمت میں مع اسماء مریدین روانہ کرتا ہوں۔ مدعا یہ ہے کہ اگرچہ میں ان خدمات خاصہ کے لحاظ سے جو میں نے اور میرے بزرگوں نے محض صدق دل اور اخلاص اور جوش وفاداری سے سرکار انگریزی کی خوشنودی۱؎ کے لئے کی ہے۔ عنایت خاص کا مستحق ہے۔ صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار… اس خود کاشتہ پودا۲؎ کی نسبت نہایت حزم واحتیاط اور تحقیق سے کام لے اور اپنے ماتحت کو ارشاد فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری۳؎ اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں… اس لئے کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ مورد مراحم گورنمنٹ ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱)
ہر حال میں حق بات کا اظہار کریں گے
منبر نہیں ہو گا تو سردار کریں گے
جب تک بھی دہن میں ہے زباں سینے میں دل ہے
کاذب کی نبوت کا ہم انکار کریں گے
(سید امین گیلانیؒ)
۱؎ مرزاقادیانی نے اﷲ تبارک وتعالیٰ اور حضورﷺ کی خوشنودی کے لئے جہاد فی سبیل اﷲ تو نہیں کیا۔ البتہ تثلیث پرست انگریزی حکومت کی خوشنودی کے لئے حج ترک کیا اور جہاد منسوخ کرنے کے لئے ضرور تبلیغ واشاعت کی۔ مؤلف!
۲؎ اس سے یہ حقیقت روزروشن کی طرح منکشف ہوجاتی ہے کہ مرزاقادیانی کے دعوؤں کی حقیقت کیا تھی۔ اس کی پشت پناہی کون کر رہا تھا اور مرزاقادیانی کے دعوؤں کا مقصد کیا تھا۔ محض خاتم النبیینؐ کے بعد نبوت کو تاقیامت جاری سمجھنا، وحی والہام کو ہر خاص وعام کے لئے عام کرنا، حج ترک کر کے اسلام کی مرکزیت کو تباہ کرنا اور جہاد کو منسوخ قرار دے کر مجاہدین کے جذبہ شہادت کو کچلنا تاکہ تثلیث پرست انگریزوں کی حکومت مستحکم ہو جائے۔ مؤلف! ۳؎ جوان کے خاندان نے اپنے مغل خاندان یعنی شہنشاہان مغلیہ سے غداری۔ ان کا قتل اور گرفتاری وغیرہ کراکر حاصل کی۔ مؤلف!