لیا۔ پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے۔ جس کو علیؓ نے تالیف کیا ہے اور اب علیؓ وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے۔‘‘
(حاشیہ براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۵۰۴، خزائن ج۱ ص۵۹۹)
اور شیعہ حضرات کی کتاب حدیث الکافی میں حضرت علیؓ کے اس قرآن کے متعلق سالم بن سلمہ سے روایت ہے کہ: ’’ایک شخص نے حضرت ابوعبداﷲ علیہ السلام کے سامنے قرآن پڑھا۔ میں کان لگا کر سن رہا تھا۔ اس کی قرأت عام لوگوں کی قرأت کے خلاف تھی۔ حضرت نے فرمایا اس طرح نہ پڑھو۔ بلکہ جیسے سب لوگ پڑھتے ہیں تم بھی پڑھو۔ جب تک ظہور۱؎ قائم آل محمد نہ ہو جب ظہور (مہدی) ہوگا تو وہ قرآن کی صحیح صورت میں تلاوت۲؎ کریں گے اور اس قرآن کو نکالیں گے جو حضرت علیؓ نے لکھا تھا اور فرمایا جب حضرت علیؓ جمع قرآن اور اس کی کتابت سے فارغ ہوئے تو آپ نے اس کو حکومت۳؎ کے سامنے پیش کر کے فرمایا تھا۔ یہ ہے کتاب اﷲ جس کو میں نے اس ترتیب سے جمع کیا ہے۔ جس طرح حضرت رسول خدا پر نازل ہوئی تھی۔ میں نے اس کو دو لوحوں
۱؎ اور قائم آل محمدؐ کے متعلق الکافی میں ہے کہ: ’’راوی کہتا ہے میں نے امام علی نقی علیہ السلام سے سنا کہ میرا جانشین میرے بعد حسن ہے۔ پس کیا حال ہوگا۔ تمہارا میرے جانشین کے بعد آنے والے جانشین کے متعلق میں نے کہا یہ کیوں فرمایا۔ اس لئے کہ تم اس کے وجود کو نہ دیکھو گے اور اس کا ذکر اس کے نام سے نہ کر سکو گے۔‘‘ (الشافی ترجمہ الکافی ج۱ کتاب الحجت ص۳۸۸) اور مزید لکھا: ’’راوی کہتا ہے۔ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سنا کہ حضرت سے جب قائم آل محمدؐ کے متعلق سوال کیاگیا تو آپ نے فرمایا۔ ان کا جسم نہیں دیکھا جائے گا اور ان کا نام نہیں لیا جائے گا۔‘‘ اور مزید روایت ہے کہ: ’’راوی کہتا ہے حضرت ابوعبداﷲ علیہ السلام نے فرمایا کہ صاحب الامر کو ان کے نام سے نہ پکارے گا مگر کافر۔‘‘ (الشافی ترجمہ الکافی جلد اوّل کتاب الحجت ص۳۹۵) جب مہدی کا وجود نہیں ہوگا اور نام سے بھی نہیں پکارا جائے گا تو حضرت علیؓ کا مجسم قرآن کون پیش کرے گا۔ مؤلف!
۲؎ گویا اہل سنت والجماعت کی طرح تمام شیعہ حضرات بھی مہدی کے ظہور تک غلط قرآن ہی پڑھتے رہیں گے۔ مؤلف!
۳؎ مراد خلیفتہ الرسول سیدنا ابوبکرؓ صدیق ہیں۔ جنہوں نے نبی آخرالزمانؐ کے مرتب شدہ قرآن جس کو امام کہا جاتا تھا۔ اس کی نقول کراکر امت مسلمہ میں پھیلایا اور جو آج بھی من وعن موجود ہے اور قیامت تک محفوظ اور موجود رہے گا۔ مؤلف!