سے جمع کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے پاس جامع قرآن موجود ہے۔ ہمیں آپ کے قرآن کی ضرورت نہیں۔ حضرت نے فرمایا اس کے بعد اب تم کبھی اس کو نہ دیکھو گے۔‘‘
(الشافی ترجمہ اصول کافی جلد دوم باب فضل القرآن ص۶۳۰،۶۳۱)
یہ تھے مرزاقادیانی کے عزائم اور دعوے کہ قصر نبوت میں داخل تو سیرت صدیقی کی کھڑکی سے ہو رہے ہیں۔ مگر ان کے اس قرآن کو قبول نہیں کر رہے۔ جسے خود ہادی برحق، امام آخرالزمان حضرت خاتم النبیینﷺ نے خود اﷲتعالیٰ کی رہنمائی میں جمع اور مرتب فرمایا تھا اور جیسے اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ان علینا جمعہ وقرانہ (القیٰمۃ:۱۷)‘‘ {ہمارے ذمے اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھنا ہے۔} اور جس کی نشرواشاعت خلیفتہ الرسول سیدنا ابوبکرؓ صدیق نے کی اور جو تمام دنیا میں آج بھی اسی حالت میں موجود اور قیامت تک نسل انسانی کی فلاح وبہبود کے لئے امام وپیشوا اور رہبر رہے گا۔ جس کی حفاظت کا ذمہ خود خالق کون ومکان نے اپنے اوپر فرض ٹھہرایا ہے۔ مگر قرآن بھی وہ لیا جو بقول شیعہ حضرات، حضرت علیؓ نے نزولی طریقے سے مرتب فرمایا تھا اور جسے خلیفتہ الرسول سیدنا ابوبکرؓ صدیق اور اصحابؓ رسول مقبولؐ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ان کے پاس امام آخرالزمانﷺ کا مرتب کردہ ’’جامع قرآن موجود ہے ہمیں آپ کے قرآن کی ضرورت نہیں‘‘ اور اس قرآن کے متعلق بقول شیعہ حضرات خود حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ: ’’اب تم کبھی اس کو نہ دیکھو گے۔‘‘ اہل سنت والجماعت اور شیعہ حضرات نے حضرت علیؓ کا قرآن کہاں دیکھنا تھا۔ بلکہ بقول شیعہ محدثین یہ وہ قرآن تھا جسے خود حضرت علیؓ کے بعد ان کے کسی امام نے بھی نہیں دیکھا۔ کیونکہ آپؓ نے فرمایا تھا کہ: ’’جب ظہور (مہدی) ہوگا تو وہ قرآن کی صحیح صورت میں تلاوت کریں گے اور اس قرآن کو نکالیں گے۔‘‘ (جو حضرت علیؓ نے لکھا تھا) اور اس قرآن کو مرزاغلام احمد قادیانی نے نکالا اور امت مسلمہ میں فریضہ جہاد کو حرام قرار دیا۔ جو ان کو نہ مانے اسے کافر وکذاب کہا، یہاں تک کہ مسلمان بچے کی نماز جنازہ تک کو پڑھنا جائز نہ سمجھا اور خود اسلام کے مقدس فریضہ حج کو ترک کیا اور خنزیر۱؎ مارنے کی بجائے اس تثلیث پرست انگریز قوم کی پشت پناہی
۱؎ جب مولوی محمد حسین بٹالوی نے مرزاغلام احمد قادیانی پر اعتراض کیا کہ وہ حج کے کیوں تارک ہیں تو اس کے جواب میں کہا۔ ’’میرا پہلا کام خنزیروں (یعنی علمائے اسلام) کا قتل صلیب کی شکست ہے۔ ابھی تو میں خنزیروں کو قتل کر رہا ہوں۔ بہت سے خنزیر مرچکے ہیں اور بہت سخت جان ابھی باقی ہیں۔ ان سے فرصت اور فراغت ہو لے۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ حصہ پنجم ص۲۶۴، مرتبہ منظور الٰہی)