مدینہ افواج اسلامیہ سے خالی ہوچکا تھا۔ ایسے نازک دور میں جلیل القدر صحابہؓ جن میں سیدنا عمرفاروقؓ جیسے راسخ العقیدہ اور جبار بھی شامل تھے۔ جن کے متعلق حضورﷺ نے فرمایا تھا: ’’حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا تم سے اگلی امتوں میں سے کچھ لوگ محدث ہوئے تھے تو میری امت میں اگر کوئی ہوگا تو وہ عمرؓ ہیں۔‘‘ (بخاری ترجمہ اردو پارہ۱۴)
ان سب نے مل کر خلیفتہ الرسول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ تالیف قلوب اور نرم برتاؤ کیا جانا مناسب ہے۔ اسے سن کر نائب رسول آخرالزمانؐ نے فرمایا: ’’یہ کیا کہ تم جاہلیت میں تو بڑے جبار تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد ذلیل وخوار ہوگئے۔ وحی کاسلسلہ منقطع ہوچکا اور دین مکمل ہوگیا۔ کیا میری حیات میں اس کی قطع وبرید کی جائے گی۔ واﷲ اگر لوگ ایک رسی کا ٹکڑا بھی (فرض زکوٰۃ میں سے) دینے سے انکار کریں گے تو میں ان پر جہاد کروں گا۔‘‘ (سیرۃ الصدیقؓ ص۱۵۰، اولیات صدیقیؓ ص۴)
اﷲ اکبر! یہ ہے وہ سیرت صدیق اکبرؓ کا دروازہ جنہوں نے فرمایا کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا۔ دین مکمل ہوگیا اور وہ زکوٰۃ نہ ادا کرنے والوں سے جہاد کریں گے۔ لیکن اسلامی احکام میں کسی قسم کی قطع وبرید نہیں ہونے دیں گے۔ مگر مرزاغلام احمد قادیانی سیرت صدیقی کے دروازہ سے داخل ہوکر وحی اور نبوت کے سلسلہ کو جاری سمجھتے ہیں۔ دین کو نامکمل سمجھتے ہیں اور جہاد کو حرام قرار دیتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب مسلمانوں کی حالت دگرگوں تھی اور ہندو مشرک اور تثلیث پرست انگریز انہیں نیست ونابود کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ لیکن ابوبکر صدیقؓ ان لوگوں سے بھی جہاد کرنے کو تیار ہیں۔ جو دین اسلام کے صرف ایک فریضہ زکوٰۃ کو ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
چہ نسبت خاک را باعالم پاک
قرآن علیؓ
اب مرزاغلام احمد قادیانی نے دوسرا حربہ استعمال کیا اور اپنا کشف بیان کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے۔ یعنی جناب پیغمبر خداﷺ وحضرت علیؓ وحسنینؓ وفاطمہ زہراؓ اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ