’’بخاری اور مسلم میں ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ حضرتؐ نے فرمایا کہ سب آدمیوں میں سے مجھ پر بڑا احسان کرنے والا ساتھ دینے والا اور اپنے مال کے خرچ کرنے میں ابوبکرؓ (صدیق) ہے اور اگر میں اپنے رب کے سوائے کسی اور کو جانی دوست ٹھہراتا تو ابوبکرؓ(صدیق) ہی کو جانی دوست کرتا۔ لیکن اسلام کی برادری اور محبت اس کے درمیان ہے۔ مسجد کی طرف سے سب کے دروازے بند کر دئیے جاویں۔ مگر ابوبکرؓ (صدیق) کا دروازہ کھلا رہے۔‘‘
(مشارق الانوار ص۵۴۰، بخاری ترجمہ اردو پارہ۱۴)
حضورﷺ نے اس ارشاد کی تعمیل میں اپنی وفات حسرت آیات کے قریب سب اصحابؓ کے دروازے جو مسجد نبوی کی طرف کھلتے تھے۔ بند کرادئیے تھے۔
’’اس حدیث سے ابی بکر صدیقؓ کی سب اصحابؓ پر فضیلت ثابت ہوئی اور اس میں صاف اشارہ کیا ان کی خلافت کا۔‘‘ (مشارق الانوار ص۵۴۰)
اور صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی حضور نبی آخرالزمانﷺ کے خلیفہ ہیں اور حضرت عمرؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے خلیفہ ہیں۔ حضرت عثمانؓ، حضرت عمرؓ کے خلیفہ ہیں اور حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کے خلیفہ ہیں۔ اسی لئے جب حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات ہوئی تو حضرت علیؓ نے کہا: ’’الیوم انقطعت خلافۃ النبوۃ‘‘ {آج خلافت نبوت کا خاتمہ ہوگیا۔}
(سیرۃ الصدیق ص۱۳۰، خلفائے راشدین ص۵۵۵، اولیات صدیقی ص۱۲)
لیکن حضرت علیؓ کے اس کہنے کے بعد بھی کہ: ’’آج خلافت نبوت کا خاتمہ ہوگیا۔‘‘ مرزاغلام احمد قادیانی اپنے آپ کو حضور خاتم الانبیاء کا خلیفہ سمجھتے ہیں اور جس سیرت صدیقی کے دروازے سے قصر نبوت میں گھسنا چاہتے ہیں۔ اس صدیق اکبرؓ نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ انہوں نے خود ملہم ومحدث وامام ونبی ورسول ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مگر مرزاغلام احمد قادیانی جو صدیق اکبرؓ کی وساطت سے سیرت صدیقی کی کھڑکی میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ ملہم، محدث، امام، نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
ایں خیال است ومحال است وجنوں
جب حضور خاتم الانبیائﷺ کی وفات کے بعد خلیفتہ الرسول حضرت ابوبکر صدیقؓ کو پیغام آئے کہ لوگوں سے ’’زکوٰۃ‘‘ وصول نہ کی جائے اور یہ مطالبہ اس وقت کیاگیا۔ جب کہ مسلمانوں کا بہترین لشکر سیدنا اسامہؓ کی سرکردگی میں رومیوں کی سرکوبی کے لئے جاچکا تھا اور مدینہ