نے دی ہے۔ تاکہ اہل سنت والجماعت اور شیعہ حضرات سب ان کے دعویٰ کو قبول کر لیں۔ مگر یہ الہام اور وحی انہیں کبھی نہیں ہوا کہ ان میں مادہ عثمانیؓ بھی ہے۔ اس لئے کہ وہ غنی تھے۔ مگر خود مرزاغلام احمد قادیانی روپیہ پیسہ خرچ کرنے میں بخیل واقع ہوئے تھے اور یہ وحی بھی انہیں کبھی نہیں ہوئی کہ ان میں سیدنا خالد بن ولیدؓ کا مادہ شجاعت وجہاد بھی ہے۔ اس لئے مرزاغلام احمد قادیانی منکر جہاد تھے۔
مادۂ فاروقی
اپنا ایک الہام لکھتے ہیں: ’’انت محدث اﷲ فیک مادۃ فاروقیۃ‘‘ یعنی تو محدث ہے تجھ میں مادہ فاروقی ہے۔ (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۵۵۹، خزائن ج۱ ص۶۶۶)
حالانکہ احادیث میں متعدد جگہ آیا ہے کہ حضورﷺ نے سیدنا عمر فاروقؓ کو محدث فرمایا۔ لیکن حضرت فاروق اعظمؓ نے کبھی اپنے متعلق یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ محدث ہیں اور اﷲتعالیٰ ان سے باتیں کرتا ہے۔ غیب کی بیشمار خبریں دیتا ہے۔ لہٰذا وہ نبی ہیں۔ لیکن مرزاغلام احمد قادیانی صرف مادۂ فاروقیؓ کی وجہ سے مجدد، محدث، نبی، رسول اور امام ہونے کے مدعی ہیں۔ جو محض افتراء وکذب ہے۔
سیرت صدیقی کی کھڑکی
مرزاغلام احمد قادیانی نے جس طرح اہل سنت والجماعت اور شیعہ روایات کے سنگم سے امام، مجدد، محدث، رسول اور نبی کے دعویٰ کئے۔ اسی طرح وہ قصر نبوت میں ’’صدیقی کھڑکی‘‘ کے ذریعے داخل ہوئے اور دعویٰ کیا کہ قرآن انہیں حضرت علیؓ نے دیا ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا کہ: ’’آنحضرتﷺ کے بعد پیش گوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دئیے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کرسکے۔ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں۔ مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنافی الرسول کی پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے۔ اس کو ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷)
مرزاغلام احمد قادیانی اس صدیقی سیرت کے دروازے سے کیوں داخل ہورہے ہیں۔ اس لئے کہ بخاری اور مسلم میں اس کے متعلق درج ذیل حدیث ہے۔