جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض بھی کم علمی کے سبب ہے۔ یہ کسی حدیث میں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے تشریف لائیں گے۔ سب احادیث میں یہی لکھا ہے کہ صلیب توڑیں گے۔ یعنی دین نصاریٰ کو باطل کر دیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ یعنی اس کے پالنے اور کھانے کو حرام کر دیں گے اور دجال کو ماریں گے۔
یہ کسی حدیث میں نہیں آیا کہ امت محمدیہ کی اصلاح کریں گے۔ اس میں امت محمدیہ کی توہین نہیں بلکہ فخر ہے کہ ایک اولوالعزم پیغمبر حضرت رحمۃ اللعالمین خاتم النبیین کی امت میں شامل ہوکر امامت کا فرض ادا کرے گا۔
دفع دخل نمبر:۳
اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ حضرت تشریف لائیں گے تو وحی رسالت کا بھی آنا ہوگا اور رسول کی حیثیت وماہیت میں یہ امر داخل ہے کہ دینی علوم کو بذریعہ جبرائیل علیہ السلام حاصل کرے تو جواب یہ ہے کہ جب دین محمدﷺ کامل ہے۔ اﷲ ’’اکملت لکم دینکم (مائدہ:۳)‘‘ فرمارہا ہے۔ تو پھر مسیح رسول کو کون سے دینی علوم بذریعہ جبرائیل لینے ہوں گے؟
کیا مسیح دین محمدؐ کا ناسخ ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ اگر مسیح علیہ السلام پر جبرائیل علیہ السلام وحی رسالت لائے تو شریعت محمدی پر اس کا حکم کرنا جو رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے۔ باطل ہوتا ہے۔ کیونکہ جب جرائیل علیہ السلام تازہ وحی لائے تو قرآنی وحی منسوخ ہوئی اور ’’اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی (مائدہ:۳)‘‘ نعوذ باﷲ! غلط ہوتا۔ پس یہ امر کہ رسول کے واسطے ہمیشہ جبرائیل علیہ السلام کا آنا لازمی امر ہے۔ غلط ہے کسی نص شرعی میں نہیں ہے کہ مسیح موعود پر جبرائیل علیہ السلام وحی لائے گا۔ بلکہ اجماع امت ہے کہ مسیح موعود باوجود رسول ہونے کے حضرت محمدﷺ کی امت میں شمار ہوگا۔ جیسا کہ محی الدین ابن عربیؒ فتوحات مکیہ کے باب ۲۳ میں فرماتے ہیں۔
’’جاننا چاہئے کہ امت محمدیہ میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو ابوبکر صدیقؓ سے سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے افضل ہو۔ کیونکہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوںگے تو اسی شریعت محمدی سے حکم کریں گے اور قیامت میں ان کے دو حشر ہوںگے۔ ایک حشر انبیاء کے زمرے میں ہوگا اور دوسرا حشر اولیاء کے زمرے میں ہوگا۔‘‘
حضرت شیخ اکبرؒ صاحب کشف والہام میں مرزاقادیانی اور ان کے مریدان کو مانتے ہیں۔ اس واسطے شیخ اکبر کی تحریر مسلمہ فریقین ہے۔ حضرت شیخ کی اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد اسی شریعت محمدیؐ پر عمل کریں گے۔ باوجود یکہ خود رسول