اﷲ والرسول (النسائ:۵۹)‘‘ کے تحت ہوگا اور وہ قرآن وحدیث ہی کے مبلغ ہوںگے۔ خود ان کی رسالت ونبوت کے احکام اس وقت جاری نہ ہوںگے۔
دفع دخل نمبر:۱
اگر کہا جائے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ایسے نبیوں کی بابت ہے جو ایک زمانے میں دنیا میں موجود تھے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی صورت میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ نبی اکرمﷺ دنیا میں میں تشریف نہیں رکھتے تو جواب اس کا یہ ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی صورت میں یہ امر بطریق اولیٰ جائز ہے۔ کیونکہ جب حقیقتاً دو نبی اکھٹے ہو سکتے ہیں تو زمانہ اور زندگی کے لحاظ سے کیوں منع ہے؟ ایک تو باعتبار زمان نبوت کے ہو اور دوسرا اپنی حقیقی زندگی سے موجود ہو تو کوئی حرج نہیں۔ یہ امر بھی ہم قرآن شریف سے ثابت کئے دیتے ہیں۔‘‘
اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ولقد اٰتینا موسیٰ الکتاب وقفینا من بعدہ بالرسل (البقرہ:۸۷)‘‘ {ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی اور اس کے بعد قدم بقدم کئی رسول بھیجے۔}
دوسرے مقام پر اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’انا انزلنا التوراۃ فیہا ہدی ونور یحکم بہا النبیون الذین اسلموا (مائدہ:۴۴)‘‘ {ہم نے توراۃ نازل کی۔ اس میں ہدایت اور نور تھا۔ اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ خدا کے فرمانبردار نبی۔}
ان آیات سے ظاہر ہے کہ شریعت موسوی کے تابع کئی رسول مبعوث کئے گئے اور وہ سب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ہوئے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے آئین وشریعت پر کئی نبی ہوئے اور رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہوکر دنیا میں زندہ موجود ہونے میں کوئی فرق نہیں۔
پس ثابت ہوگیا کہ آنحضرتﷺ پر نبوت ختم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ نہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کو آپ سے پیشتر نبوت مل چکی ہوئی ہے۔ نہیں آئیں گے۔
دفع دخل نمبر:۲
شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ کیا امت محمدﷺ کی اصلاح بغیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نہیں ہوسکتی؟ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی دوبارہ نزول فرمائیں۔ کیا اس میں امت محمدیہ کی توہین نہیں ہے؟ کہ اس میں کوئی لائق اصلاح امت نہیں؟