ہوںگے۔ چونکہ شریعت محمدیؐ کامل شریعت ہے۔ اس لئے ان کو بعد نزول وحی رسالت نہ ہوگی۔ دوسرے اولیائے امت کی طرح ان کو بھی الہام ہوگا۔
وحی رسالت بے شک رسول کے واسطے لازمی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہلے ضرور حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی رسالت لایا کرتے تھے۔ مگر وہ آنا محمد رسول اﷲﷺ سے پہلے تھا جو کہ ان کی رسالت کا زمانہ تھا اور وہ اسی طرح وحی رسالت سے رسول تھے اور صاحب انجیل تھے۔
مگر یہ اعتراض سراسر غلط ہے کہ بعد نزول بھی ان کی وحی رسالت ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ رسول کو علم دین بذریعہ جبرائیل ملتا ہے۔ نزول جبرائیل علیہ السلام چونکہ بعد خاتم النبیین مسدود ہے۔ اس لئے عیسیٰ رسول اﷲ پر بھی بعد خاتم النبیین کے نہیں آسکتے اور رسول کے لئے ضروری نہیں کہ ہر وقت بلاضرورت بھی اس کے پاس جبرائیل وحی رسالت لاتا رہے اور وہ وحی رسالت کے بند ہونے سے کسی رسول کی رسالت جاتی رہتی ہے۔ حضرت خاتم النبیین کے پاس کتنی کتنی مدت تک جبرائیل نہ آئے تھے تو کیا نبی کریمﷺ کی رسالت جاتی رہتی تھی؟ اور پھر جب جبرائیل علیہ السلام آتے تھے۔ تب آپ پھر رسول ہو جاتے تھے۔ ہرگز نہیں۔
دفع دخل نمبر:۴
اگر شبہ ہو کہ بعد نزول عیسیٰ ان کے امتی ہونے سے رسالت چھن جائے گی تو جواب یہ ہے کہ یہ کہاں سے سمجھ لیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعد نزول اپنی نبوت ورسالت چھن جائے گی اور وہ معزول ہوںگے۔ جب نظیریں موجود ہیں اور نص قرآنی ثابت کر رہی ہے کہ سب انبیاء علیہم السلام حضرت خاتم النبیین کی امت میں شمار ہوںگے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ سب انبیاء سے اقرار لے چکا ہے کہ وہ خاتم النبیین کی پیروی کریں گے اور ضرور اس پر ایمان لائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’واذ اخذنا میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ (آل عمران:۸۱)‘‘ {جب خدا نے نبیوں سے اقرار لیا جو کچھ میں نے تم کو کتاب اور حکمت دی ہے۔ پھر جب تمہاری طرف رسول آئے جو تمہاری سچائی ظاہر کرے گا تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور ضرور مدد کرو گے۔} معراج والی حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام نے آنحضرتﷺ خاتم النبیین کے پیچھے نماز پڑھی اور آنحضرتﷺ انبیاء کرام کے امام نبے اور اولوالعزم رسول آپ کے مقتدی ہوئے۔ جب ان تمام رسولوں اور نبیوں کی رسالت بحال رہی