اس آیت کے متعلق شیعہ حضرات کی معتبر کتاب حدیث الکافی میں روایت ہے کہ: ’’حکیم بن عتیبہ سے مروی ہے کہ میں حضرت علی بن الحسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کہا یا ابن رسول اﷲﷺ مجھے اس آیت سے آگاہ کیجئے۔ فرمایا خدا کی قسم وہ اﷲتعالیٰ کا یہ قول ہے ’’وما ارسلنا قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث وکان علی بن ابی طالب محدثا‘‘ ہم نے تم سے پہلے نہ کسی رسول کو بھیجا اور نہ نبی اور محدث کو اور علی بن ابی طالب محدث تھے۔‘‘ (الشافی ترجمہ اصول کافی جلد اوّل بابت۵۳ ص۳۱۰)
امام اور محدث
اور پھر امام اور محدث کے متعلق شیعہ حضرات کی معتبر کتاب حدیث الکافی میں ہے: ’’محدث وہ ہے جو ملائکہ سے ہم کلام ہوتا ہے۔ ان کا کلام سنتا ہے۔ لیکن اسے دیکھتا نہیں اور نہ خواب میں نظر آتا ہے۔‘‘ (الشافی ترجمہ اصول کافی جلد اوّل ص۲۰۴)
مزید روایت ہے: ’’حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں اور میرے صلب سے گیارہ امام محدث ہیں۔‘‘ (الشافی ج۱ ص۲۸۱)
الہام اور سلسلہ وحی الٰہی منقطع نہیں ہوا
اور شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے کہ خاتم الانبیائﷺ پر وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔ بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جاری ہے۔ کیونکہ ان کا امام غائب ایسا روپوش ہوا ہے کہ وہ قیامت کے قریب آئے گا اور جب تک امام غائب نہیں آئے گا۔ سلسلہ وحی الٰہی منقطع نہیں ہوگا۔ کیونکہ جو احکام من اﷲ ہیں۔ وہ بغیر امام کے وسیلہ کے حاصل نہیں ہوتے۔ ان کی معتبر کتاب حدیث الکافی میں روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس (امام) کا علم اس وسیلہ سے… جو آسمان تک کھینچا ہوا ہے۔ تاکہ وحی۱؎ الٰہی کا سلسلہ منقطع نہ ہوا اور جو احکام من۲؎ اﷲ ہیں وہ نہیں حاصل ہوتے۔ مگر بوسیلہ امام۔ (الشافی ترجمہ اصول کافی ج۱ ص۲۳۵،۲۳۶)
۱؎ اہل تشیع نے وحی نبوت کی جگہ وحی امامت کا عقیدہ اختراع کیا۔ مؤلف!
۲؎ قرآن حکیم سے بڑھ کر اور کون سے احکام من اﷲ نازل ہوسکتے ہیں۔ جبکہ احکام الٰہی کی یہ سب سے آخری لاریب کتاب ہے جو بعد از خاتم النبیینﷺ امت مسلمہ کی پیشوا، ہادی، مسیح اور امام ہے اور جس کی حفاظت کا ذمہ خود اس کتاب مبین کے نازل کرنے والے خالق نے تاقیامت اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ہر مصلح بھی اسی قرآن حکیم یعنی امام آخرالزمان کے وسیلے سے ہی احکام الٰہی حاصل کرتا ہے اور تاقیامت امت مسلمہ کرتی رہے گی۔ (مؤلف)