قادیانی نے پہلے مجدد کا دعویٰ کیا۔ پھر محدث کا اور لکھا۔ ’’ہمارے سید الرسول اﷲ، خاتم النبیینﷺ ہیں اور بعد آنحضرتﷺ کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس لئے شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں۔‘‘ (شہادت القرآن ص۲۸، خزائن ج۶ ص۳۲۳)
اور پھر محدث سے نبی کا دعویٰ کیا تھا اور لکھا: ’’اگر خداتعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا۱؎ تو پھر بتلاؤ کس نام سے پکارا جائے۔ اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۰۹)
اور مرزاغلام احمد قادیانی اور ان جیسے مدعیان نے جو مجدد، محدث، ابدال، اقطاب، غوث، نقیب، نجیب، اوتار، ظلی نبی اور بروزی نبی وغیرہ اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔ ان کا قرآن حکیم میں کہیں وجود نہیں۔ بلکہ عجمیوں یعنی اہل فارس نے وضع کی ہیں۔ مرزائیوں کا ہفت روزہ اخبار یوں نقاب کشائی کرتا ہے۔
’’ان اصطلاحات کا قرآن مجید اور احادیث میں تو کوئی ذکر نہیں اور آنحضرتﷺ کے پانچ چھ سوسال بعد تک ہمیں ان کا وجود نظر نہیں آتا۔ لیکن جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے۔ یہ اصطلاحات صوفیاء کرام نے وضع کی تھیں۔‘‘
(پیغام صلح بابت مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۹۷۳ئ)
اور جس طرح محدث کے متعلق شیعہ حضرات نے سورہ الحج کی ۵۲ویں آیت میں ’’ولا نبی‘‘ کے بعد ’’ولا محدث‘‘ (الشافی ج۱ ص۲۰۳) بڑھا کر ثابت کیا کہ محدثین کا سلسلہ جاری ہے اور ان میں حضورﷺ کی تمام صفات ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ اﷲتعالیٰ سے مکالمہ ومکاشفہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح مرزاغلام احمد قادیانی نے بھی جب محدث کا دعویٰ کیا تو اسی سورۂ الحج کی ۵۲ویں آیت کو ہی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش کرتے ہوئے لکھا۔
’’آنحضرتﷺ بشارت دے چکے ہیں کہ اس آیت میں بھی پہلی امتوں کی طرح محدث پیدا ہوںگے اور محدث بفتح دال وہ لوگ ہیں جن سے مکالمات ومخاطبات الٰہیہ ہوتے
۱؎ اس سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ مرزاقادیانی خود ہی اپنا نام مجدد، محدث اور نبی رکھتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے کبھی ان کو ان ناموں سے نہیں پکارا۔ (مؤلف)