یہاں سراجاً منیرا فرماکر اس حقیقت کو عیاں فرمایا کہ جب تک نظام شمسی قائم ہے۔ حضورﷺ کی نبوت ورسالت قائم رہے گی۔ آپؐ کے بعد کسی اور امام وبشیر ونذیر کی ضرورت نہیں۔
اتنی بین آیات واحادیث کے بعد بھی اگر کوئی امامت، محدثیت، رسالت اور نبوت کا دعویٰ کرے وہ کذاب اور مفتری نہیں تو اور کیا ہے؟
تمام مدعیان مجددیت کا ماخذ اور مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ
مرزاغلام احمد قادیانی نے بھی عجمی اور خصوصاً اہل فارس کی دیرینہ سازش کی بنیاد پر ہی مجدد صدی چہار دہم کا دعویٰ کیا۔ جس کی بنیاد ذیل کی حدیث ہے۔ جس کے ذریعے اہل فارس نے یہ ضروری ٹھہرایا کہ ہر صدی میں مجدد۱؎ آنا ضروری ہے۔ تاکہ تجدید دین کر سکے۔یہ حدیث نہ بخاری میں ہے اور نہ ہی مسلم میں جو اہل سنت والجماعت کی معتبر کتب حدیث ہیں۔ علاوہ ازیں صحاح ستہ کی اور کسی کتاب میں نہیں ماسوا ابوداؤد کے اور وہ حدیث یہ ہے: ’’قال رسول اﷲﷺ ان اﷲ یبعث لہٰذا الامۃ علیٰ راس کل مائۃ من یجددلہا دینہا (ابوداؤد ج۱ ص۳۶)‘‘ {فرمایا رسول اﷲﷺ نے اﷲتعالیٰ ہر ایک صدی کے سر پر اس امت کے لئے ایک شخص مبعوث فرمائے گا۔ جو اس کے لئے دین کو تازہ کرے گا۔}
دین حق ’’اسلام‘‘ جو کل کائنات کا دین ہے۔ جس کی تبلیغ واشاعت کے لئے لاکھوں انبیاء مبعوث ہوئے۔ کئی ایک الہامی کتب نازل ہوئیں۔ لاتعداد اہل حق کی قربانیوں سے یہ
۱؎ مرزاغلام احمد قادیانی نے مجدد کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھا۔ ’’جب سن ہجری کی تیرہویں صدی ختم ہوچکی تو خدا نے چودھویں صدی کے سر پر مجھے اپنی طرف سے مامور کر کے بھیجا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۱۳، خزائن ج۲۳ ص۳۲۸) اور جب ان کے مذکورہ بالا دعویٰ کے ثبوت میں ان سے پہلے تیرہ مجددین کا نام پوچھا تو کہا۔ ’’ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ تمام مجددین کے نام ہمیں یاد ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۹۳، خزائن ج۲۲ ص۲۰۱) اب اگر اس سلسلہ مجددین کو دیکھا جائے تو اہل سنت والجماعت کے مجددین اور ہیں اور اہل تشیع کے اور۔ جیسا کہ (الشافع ترجمہ الکافی ص۸) پر محمد بن یعقوب الکلینی متوفی ۳۲۹ھ مصنف الکافی اور دوسرے شیعہ مجددین کے متعلق لکھا ہے کہ: ’’ابن اثر جزری نے جامع الاصول میں ان کو قرن ثالث کا مجدد مذہب لکھا ہے۔ جبکہ قرن دوم کا مجدد حضرت امام رضا علیہ السلام کو لکھا ہے اور قرن چہارم کا سید مرتضیٰ علم الہدیٰ کو شمار کیا ہے۔‘‘