اسی طرح سورۃ اعراف میں ہے: ’’وقال لاخیہ ہارون اخلفنی فی قومی (الاعراف:۱۴۲)‘‘ {جب موسیٰ علیہ السلام حسب وعدہ الٰہی کوہ طور پر چلے تو اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو کہنے لگے۔ میرے بعد میری قوم میں میرا خلیفہ رہنا۔}
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا خلیفہ مقررکرتے ہیں اور قوم کو صرف اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ حضرت ہارون علیہ السلام بھی نبی تھے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’ووھبنا لہ من رحمتنا اخاہ ہارون نبیاً (مریم:۵۳)‘‘ {ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون (علیہ السلام) نبی کر کے بخشا۔}
اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام دونوں ایک وقت میں ہوئے ہیں اور دونوں نبی تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام صاحب شریعت اور امام تھے اور حضرت لوط علیہ السلام باوجود نبی ہونے کے ان کے تابع تھے۔ چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام کی نبوت ورسالت کے بابت فرمایا: ’’وان لوطاً لمن المرسلین (الصافات:۱۳۳)‘‘ {بے شک حضرت لوط علیہ السلام بھی رسولوں میں سے ہیں۔}
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تابع ہونے کی بابت اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’فاٰمن لہ لوط (عنکبوت:۲۶)‘‘ {(حضرت) لوط (حضرت) ابراہیم علیہما السلام پر ایمان لائے۔}
اسی طرح حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہما السلام دونوں ایک وقت میں نبی تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام تھے اور حضرت یحییٰ علیہ السلام ان کے تابع تھے۔ جیسے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفات میں فرمایا: ’’مصدقاً بکلمۃ من اﷲ (آل عمران:۳۹)‘‘ {حضرت یحییٰ کلمۃ اﷲ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔}
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوںگے تو اصل صاحب شریعت اور امام جناب رسول اﷲﷺ ہی ہوںگے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپؐ کے خلیفہ، وزیر اور تابع ہوںگے اور نبی بھی ہوںگے۔ اسی لئے صحیح مسلم کی حدیث جو حضرت نواس بن سمعانؓ سے راوایت ہے۔ اس میں آپؐ کو چار دفعہ نبی اﷲ کہاگیا ہے۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام اولوالامر ہوںگے اور بحیثیت اولوالامر ہونے کے ان سے تنازعہ ممکن ہے اور اس کا فیصلہ بھی ’’فردوہ الیٰ