فرمائے۔ جو دعا سے نہیں بنتے۔ بلکہ جس کو اﷲ تعالیٰ نے اس اعزاز مقدس کا اہل سمجھا۔ اس کو نسل انسانی کی امامت کے لئے خود منتخب فرمایا۔ پھر اس کے قلب اطہر پر بذریعہ جبرائیل اپنے کلام وحی کو نازل فرمایا اور نازل شدہ کتب اﷲ کی روشنی میں اس امام ونبی نے نسل آدم کو اعمال خیر کرنے اور اعمال شر سے بچنے کی ہدایت فرمائی۔ جب تک وہ نبی ان میں زندہ رہا وہ ان کا امام وپیشوا رہا اور اس کی وفات کے بعد دوسرے نبی کی بعثت تک اس نبی پر نازل شدہ کتاب ان کی امام وپیشوا رہی۔ بالآخر نسل آدم کی اصلاح کے لئے حضور خاتم النبیینﷺ مبعوث ہوئے۔ جن کی تشریف آوری کی گذشتہ تمام انبیاء نے بشارت دی تھی۔ آپؐ کی بعثت نے آپؐ جیسے عظیم الشان اور آخرالزمان امام منتظر کے لئے انتظار کی گھڑیوں کو ختم کیا اور رب کائنات نے دین حق کو آپؐ کی ذات پر مکمل فرمایا اور آپؐ کو اپنی آخری الہامی کتاب دی اور اس کی حفاظت کا ذمہ اﷲتبارک وتعالیٰ نے خود لے لیا۔ جب تک حضورﷺ زندہ رہے۔ وہ امت مسلمہ کے امام وپیشوا رہے اور آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد قرآن کریم جیسی لاریب کتاب امت مسلمہ کی قیامت تک امام وپیشوا ہے اور جب تک ہستی باری تعالیٰ قائم ودائم ہے۔ اس وقت تک نبی آخرالزمانﷺ امام آخرالزمان ہیں۔ یعنی آپؐ کی ذات واجب الاحترام قیامت تک امام وپیشوا ہے۔ اس لئے قیامت تک کسی اور امام کی حضورﷺ کی امامت کی موجودگی میں قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ جو خواہ مخواہ تجدید دین کر کے گناہ کبیرہ کا موجب ہو اور حضورﷺ کی امت کو گمراہ کرے۔
اور قرآن مجید ہی وہ امام الزمان ہے جو لاریب ہے۔ جس کا (نازل کرنے والا) خالق ہے۔ اس کا محافظ ونگہبان ہے۔ جس کے متعلق خود خدا محافظ حقیقی ہے۔ ان الفاظ میں دعویٰ فرمایا: ’’قل لئن اجتمعت الانس والجن علیٰ ان یاتوا بمثل ہذا القرآن لا یأتون بمثلہ ولو کان بعضہم لبعض ظہیرا ولقد صرفنا للناس فی ہذا القرآن من کل مثل فابیٰ اکثر الناس الاکفورا (بنی اسرائیل: ۸۸،۸۹)‘‘ {اور یقینا ہم نے لوگوں کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کی نادر باتیں باربار بیان کر دی ہیں۔ مگر اکثر لوگوں کو سوائے انکار کے کچھ منظور نہیں۔}
اور یہ وہ امام الزمان ہے کہ نہ اس کی مثل کوئی بناسکتا ہے اور نہ ہی قیامت تک اس کے احکامات وتعلیمات میں کوئی کمی بیشی کر سکتا ہے۔ حضور نبیﷺ کی وفات حسرت آیات کے بعد یہی اﷲتبارک وتعالیٰ کی آخری الہامی کتاب نسل انسانی کی راہ نما ہادی، مہدی اور امام ہے۔