بحق۰ ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک انک انت علام الغیوب ما قلت لہم الاما امرتنی بہ ان اعبدوا اﷲ ربی وربکم وکنت علیہم شہیداً ما دمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علیٰ کل شیٔ شہید (المائدہ:۱۱۶،۱۱۷)‘‘ {اور جب اﷲ کہے گا۔ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اﷲ کے سوا دو معبود بنالو۔ عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے تو پاک ہے۔ مجھے حق نہیں تھا۔ اگر میں نے ایسا کہا تھا تو تجھے ضرور اس کا علم ہوگا تو جانتا ہے جو کچھ میرے جی میں تھا اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے۔ تو ہی غیب کی باتیں جاننے والا ہے۔ میں نے ان سے کچھ نہیں کہا۔ مگر وہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ اﷲ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے اور میں ان پر گواہ تھا۔ جب تو نے مجھے پورا پورا لے لیا تو تو ہی ان پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔}
امام کے متعلق قرآن حکیم میں ایک دعا بھی ہے۔
فرمایا: ’’والذین یقولون ربنا ہب لنا من ازواجنا وذریتنا قرۃ اعین واجعلنا للمتقین اماما (الفرقان:۷۱)‘‘ {اور وہ جو کہتے ہیں۔ اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں سے اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔}
یہاں تو انسان کی خواہش کا اظہار پیش کیا ہے کہ اس کی بیوی بچے نیک ہوں اور اﷲتبارک وتعالیٰ خود اسے نیک اعمال کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ جو دوسروں کی رہبری کا موجب ہوں۔ یہ نہیں کہ دعا کرنے سے وہ امام ونبی ہو جائے۔ کیونکہ نبوت دعا واکتساب سے نہیں ملتی۔ بلکہ یہ موہبت ہے۔ اسی لئے اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ (الانعام:۱۲۴)‘‘ {اﷲ خوب جانتا ہے کہ کہاں اپنی رسالت رکھے۔}
اور فرماکر اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ متقی انسان کی رہبری وہدایت کا موجب بھی صرف یہی لاریب کتاب ہے جو سب متقیوں کی امام ہے۔
فرمایا: ’’ذالک الکتب لا ریب فیہ ہدی للمتقین (البقرۃ:۲)‘‘ {یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ متقیوں کی ہادی اور ان کی ہدایت کا موجب ہے۔}
پس ثابت ہوا کہ نسل آدم کی فلاح وبہبود کے لئے اﷲتعالٰ نے نبی وامام مبعوث