قال انی جاعلک للناس اماماً قال ومن ذریتی قال لاینال عہدی الظلمین (البقرہ:۱۲۴)‘‘ {اور جب ابراہیم علیہ السلام کو اس کے رب نے چند احکامات سے آزمایا تو اس نے ان کو پورا کیا۔ فرمایا میں تجھے لوگوں کے لئے امام بنانے والا ہوں۔ (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا اور میری اولاد سے؟ فرمایا میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔}
اور پھر فرمایا کہ قیامت کے دن ہر امت اپنے امام یعنی پیغمبر، رسول اور نبی کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں پیش ہوگی اور ان کے اعمال واعتقادات کے متعلق رب العزت ان کے امام وپیغمبر سے سوال کرے گا۔
فرمایا: ’’یوم ندعوا کل اناس بامامہم فمن اوتی کتٰبہ بیمینہ فاولئک یقرؤن کتٰبہم ولا یظلمون فتیلا (بنی اسرائیل:۷۱)‘‘ {جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے اماموں (پیغمبروں) کے ساتھ بلائیں گے تو جسے اس کی کتاب اس کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی وہ اپنی کتاب کو پڑھیں گے اور ان پر ذرہ بھر ظلم نہ ہوگا۔}
فرمایا کہ یہ امت اپنے امام یعنی نبی کے ساتھ پیش ہوگی۔ جو ان کا گواہ ہوگا اور امت مسلمہ کے امام پیغمبر آخرالزمانﷺ ہوںگے۔ آپؐ کی امت میں خلفائے راشدینؓ حضرت حسنینؓ ان کی آل واولاد، امہات المؤمنینؓ تمام دنیا کے ولی، قطب ودیگر بزرگ ہوںگے اور ان سب کے امام وپیشوا حضور نبی آخرالزمانﷺ ہوںگے اور اگر اس دن شیعہ حضرات اپنے بارہ اماموں کے ساتھ پیش ہوںگے تو حضرت علیؓ سے لے کر بارھویں امام تک منقسم ہوجائیں گے اور اہل سنت والجماعت لاتعداد اماموں میں تقسیم ہوجائیں گے اور یہ سب امت اور ان کے مفروضہ امام حضور رحمت للعالمینﷺ کی شفاعت سے محروم ہو جائیں گے۔ حالانکہ ہر نبی اپنی امت کا امام ورہبر ہوتا ہے۔ اس پر کتاب اﷲ نازل ہوتی ہے۔ جس کے احکام اوامر ونہی وہ اپنی امت کو تعلیم کرتا ہے اور اسی کی موجودگی میں اس کی امت کو بارگاہ ایزدی میں پیش کر کے جزا وسزا دی جائے گی اور قوم کے اعمال وعقائد کے متعلق اس امام ونبی سے بھی باز پرس ہوگی۔ چنانچہ عیسائیوں کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا جائے گا۔ جیسے اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا جائے گا۔
’’واذ قال اﷲ یعیسیٰ ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اﷲ قال سبحنک ما یکون لی ان اقول مالیس لی