اور قرآن مجید کے امام آخرالزمان ہونے کے متعلق مزید فرمایا: ’’وکل شیٔ احصینہ فی امام مبین (یٰسین:۱۲)‘‘ {اور ہر چیز کو ہم نے اس امام مبین میں محفوظ کرلیا ہے۔}
اور حجتہ الوداع کے موقع پر خاتم النبیینﷺ نے قرآن حکیم جیسے امام آخرالزمان کے متعلق امت مسلمہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ’’قد ترکت فیکم ماتضلوا بعدہ ان اعتصتم بہ کتاب اﷲ (بخاری باب حجۃ الوداع)‘‘ {میں تم میں ایک چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اگر تم نے اسے تھامے رکھا تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے ’’کتاب اﷲ‘‘۔}
دعا ختم القرآن اور امام وہادی ورحمت
جب مسلمان قرآن حکیم کی تلاوت کو ختم کرتے ہیں تو عموماً ذیل کی دعا پڑھتے ہیں۔ جس میں اس لاریب کتاب اﷲ کو امام، نور، ہادی اور رحمت سے موسوم کرتے ہیں: ’’اللہم انس وحشتی فی قبری اللہم ارحمنی بالقرآن العظیم واجعلہ لی اماماً ونوراً وھدی ورحمۃ اللہم ذکرنی منہ ما نسیت وعلمنی منہ ماجہلت وارزقنی تلاوتہ اناء الیل وانا النہار واجعلہ لی حجۃ یا رب العالمین‘‘ اور یہ دعا حضورﷺ، صحابہ کرامؓ اور وہ تمام بزرگ جن کو مسلمانوں کے مختلف طبقے امام کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ وہ سب ہی دعا پڑھتے ہوںگے اور وہ بھی کتاب اﷲ ہی کو امام، نور، ہادی اور رحمت یقین کرتے تھے اور حق تو یہ ہے اس آخری الہامی لاریب کتاب جس کا محافظ خود خالق کون ومکاں ہے۔ حضور خاتم النبیینﷺ کے بعد نسل انسانی کا اور کون امام تاقیامت ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ کیونکہ کسی فانی انسان کو مدام نہیں۔ اگر لامتناہی حیات ہے تو رب کائنات یا اس کی آخری الہامی لاریب کتاب قرآن حکیم کو جو تاقیامت امام آخرالزمان ہے اور جس کا محافظ خالق کون ومکان ہے۔ جسے فنا نہیں۔
نبی اﷲ اور امامت
الہامی کتب اور قرآن حکیم کے علاوہ اﷲتعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو بھی امام فرمایا ہے۔ اس لئے کہ اﷲتبارک وتعالیٰ اپنا کلام جبرئیل کے ذریعے نبی اور رسول کے قلب پر نازل فرماتا ہے۔ جس کی تعلیم کی روشنی میں وہ اپنی قوم اور نسل آدم کی فلاح وبہبود کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔ جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرمایا: ’’واذ ابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمٰت فاتمہن