تک کائنات قائم ہے۔ کتاب اﷲ محفوظ رہے گی۔ نسل انسانی کی یہی رہبر ہے اور حضورؐ کی نبوت ورسالت اور امامت قائم اور دائم ہے۔ اس لئے ایمان کا ثریا پر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر کوئی ایسا خیال بھی کرتا ہے تو اس کا ایمان اس حی وقیوم اﷲ پر نہیں ہوسکتا۔ جس کے حکم میں ارض وسما کا ذرہ ذرہ ہے۔
اس لاریب کتاب کے ’’امام آخرالزمان‘‘ ہونے کے متعلق اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’افمن کان علیٰ بینۃ من ربہ ویتلوہ شاھد منہ ومن قبلہ کتب موسیٰ اماماً ورحمۃ اولئک یؤمنون بہ ومن یکفر بہ من الاحزاب فالنار موعدہ فلاتک فی مریۃ منہ انہ الحق من ربک ولکن اکثر الناس لا یؤمنون (ھود:۱۷)‘‘ {تو کیا وہ شخص جو اپنے رب سے کھلی دلیل (قرآن حکیم) رکھتا ہے اور اس کی طرف سے ایک گواہ (نبی وامامﷺ) اس پر عمل کرتا ہے اور اس (قرآن کریم) یعنی امام سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب امام اور رحمت تھی۔ یہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی فرقوں میں سے اس (امام) کا انکار کرتا ہے تو اس میں کسی شک میں نہ رہ۔ وہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں مانتے۔}
پس معلوم ہوا کہ جب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم میں موجود رہے۔ وہ ان کے امام تھے اور ان کی وفات کے بعد توریت بنی اسرائیل کی امام تھی۔ اسی طرح حضورﷺ جب تک مسلمانوں میں موجود رہے وہ ان کے امام تھے۔ پھر آپؐ کی وفات کے بعد قرآن حکیم صحابہؓ اور نسل آدم کے مسلمانوں کا امام ہوا۔ چنانچہ حضورﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں قرآن مجید کا جو نسخہ مرتب فرمایا تھا۔ صحابہؓ اس کو امام کہتے تھے۔ چونکہ یہ لاریب آخری الہامی کتاب ہے۔ جس نے دین اسلام یعنی ضابطہ حیات نسل انسانی کو مکمل کر دیا ہے۔ اس لئے تاقیامت کل نسل آدم کا یہی امام وہبر ہے۔
اور پھر فرمایا: ’’ومن قبلہ کتب موسیٰ اماماً ورحمۃ وہذا کتب مصدق لسانا عربیاً لینذر الذین ظلموا وبشریٰ للمحسنین (الاحقاف:۱۲)‘‘ {اور اس (امام) سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب امام اور رحمت تھی اور یہ کتاب (قرآن حکیم) اس کی تصدیق کرتی ہے جو عربی زبان میں ہے۔ تاکہ وہ انہیں ڈرائے جو ظالم ہیں اور خوشخبری دے نیکی کرنے والوں کو۔}