جو کسی وقت سلب نہیں ہوسکتا اور ہم نے قرآن وسنت سے ثابت کردیا کہ نبوت ورسالت ختم ہوچکی۔ کسی شخص کو نئے سرے سے عہدۂ نبوت اب عطاء نہیں کیا جائے گا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو آنحضرتﷺ سے پہلے مرتبۂ نبوت پر فائز ہوچکے ہیں۔ لہٰذا ان کی آمد سے خاتم النبیین کی ختم نبوت پر کوئی زد نہیں پڑتی۔
ناظرین کرام! غور فرمائیں کس قدر صاف اور واضح بیان ہے کہ نبیﷺ خاتم النبیین ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آپ سے پہلے عہدۂ نبوت عطاء ہوچکا ہے۔ اب ان کی آمد ثانیہ سے ختم نبوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وہ بحیثیت آپ کے تابع آئیں گے۔ کتاب وسنت ہی کی تبلیغ واشاعت کریں گے۔ خود ان کی نبوت ورسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہوگا۔
یہ مدلل اور معقول بات بوجہ ضد اور تعصب مرزائی ہفت روزہ پیغام صلح کے مدیر کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اس لئے وہ اعتراض کرتا ہوا رقم طراز ہے۔
یہ کہنا کس طرح ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب دوبارہ آئیں گے تو وہ رسول بھی رہیں گے اور امتی بھی۔ امتی ہونا تو ان کی رسالت کے منافی ہے جوشخص رسول ہوگا وہ امتی کیسے ہوسکتا ہے؟
اب آپ فرمائیں کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اولیٰ الامر کے مقام پر رکھا جائے گا۔ جس سے تنازعہ ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں ان کی رسالت باقی نہیں رہے گی۔ یا رسول کے مقام پر سمجھا جائے گا۔ جس سے حضرت نبی کریمﷺ کی نفی ہوتی ہے اور ختم نبوت باطل ہو جاتی ہے۔ ان دونوں میں سے کون سی صورت اختیار کی جائے گی؟ (پیغام صلح ۱۸؍دسمبر ۱۹۶۸ئ)
سنئے جناب! حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی پچھلی نبوت سے نازل ہوںگے اور شریعت محمدی پر عمل کریں گے۔ ایک وقت میں دو نبیوں کا ہونا ایک امام کا ہونا اور دوسرے کا تابع ہونا ممتنع نہیں۔ بلکہ قرآن شریف سے بالتصریح ثابت ہے۔
دیکھئے! حضرت موسیٰ وہارون علیہا السلام دونوں ایک ہی وقت میں ہوئے ہیں اور دونوں نبی تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اصل صاحب شریعت امام تھے اور حضرت ہارون علیہ السلام آپ کے تابع اور خلیفہ تھے۔
چنانچہ سورۃ فرقان میں ارشاد ہے: ’’ولقد اٰتینا موسیٰ الکتٰب وجعلنا معہ اخاہ ہارون وزیراً (الفرقان:۳۵)‘‘ {ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو اس کا وزیر بنایا۔}