۱… لاہوری پارٹی جس کے امام مسٹر محمد علی صاحب اور رکن اعظم کمال الدین صاحب ہیں۔
۲… محمودی پارٹی جس کے امام مرزامحمود قادیانی ہیں۔
۳… ظہیری پارٹی جس کا پیشوا ظہیرالدین اروپی ساکن گوجرانوالہ ہے۔
۴… تیماپور پارٹی کا گرو عبداﷲ تیمارپوری ہے۔
۵… سمنبھڑالی پارٹی جس کا مقتداء محمد سعید ہے۔ سمبھڑیال ایک قصبہ وزیرآباد جو علاقہ پنجاب کے پاس ہے۔ یہ شخص وہاں کا باشندہ ہے۔ قادیانی پارٹی اور لاہوری پارٹی میں بظاہر ایک حد تک اختلاف ضرور ہے۔ جس کی بنایوں پڑی کہ مسٹر محمد علی حکیم نورالدین کے بعد چاہتے تھے کہ میں خلیفہ ہوں۔ مگر خلیفہ محمود کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ لہٰذادونوں ان بن ہوگئی۔ لیکن حقیقت میں دونوں پارٹیوں کا کوئی اختلاف نہیں۔ دونوں کے عقائد متحد اور مشترک ہیں۔ یہ بناوٹی شکل جو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ لاہوری پارٹی مرزاقادیانی کو مقتدا وپیشوا مسیح موعود مجدد اور مہدی وغیرہ مانتی ہے اور ان کی نبوت سے متعلق یہ عقیدہ ظاہر کرتی ہے کہ ظل وبروزی نبی تھے۔ حقیقی نبی نہ تھے اور مرزاقادیانی نے جن لفظوں میں دعویٰ نبوت کیا۔ ان کی دوراز کار تاویلات کرتے ہوئے حقیقت حال پر پردہ ڈالتی ہے اور محمودی پارٹی کہتی ہے کہ مرزاقادیانی حقیقی نبی تھے۔ جیسے کہ دوسرے نبی تھے اور اس کو نبی نہ ماننے والا قطعی کافر اور جہنمی ہے۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا منکر جہنمی اور کافر ہے اور مرزاقادیانی کے کسی لفظ کی جن سے دعویٰ نبوت ثابت ہوتا ہے۔ تاویل نہیں کرتی اور ان کی نبوت کو چھپانا پسند نہیں کرتی۔ بلکہ ختم نبوت کا انکار کرتی ہے۔ لاہوری پارٹی دراصل بڑی منافقت سے کام لے رہی ہے۔ کیونکہ جب اس نے دیکھا کہ مسلمان دعوی نبوت سے کلی نفرت کرتے ہیں اور ہرگز نہیں مانتے تو جھٹ اپنا تیور بدلا اور کہہ دیا کہ ہم لوگ مرزاقادیانی کو نبی نہیں مانتے اور نہ ہی اس کے نہ ماننے والے کو کافر خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ اس پالیسی سے انہوں نے بہت کچھ فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کا لاکھوں روپیہ اسی بہانہ سے گڑپ کرگئے۔ بلکہ ان کی دولت ایقان وسرمایہ ایمان کو چٹ کر گئے اور محمودی پارٹی اس کی پرواہ نہیں کرتی۔ کیونکہ اس کے امام محمود صاحب کو اپنے باپ کے ترکہ اور وراثت نے پورے طور پر بے نیاز کر دیا ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت کسی تاویل سے چھپ نہیں سکتا۔ لاہوری