دفع دخل، اگر کسی کو شبہ ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت میں آنے والے ہیں۔ وہ بھی تو نبی ہی ہیں۔ پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ نبیﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں؟ تو اس کا دفعیہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عہدۂ نبوت آنحضرتﷺ سے ۵۷۱سال پہلے عطاء ہوچکا ہے۔ اب دوبارہ آخری زمانے میں بحیثیت آپ کے ایک امتی کے آئیں گے۔ خود ان کی نبوت ورسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہوگا۔ جیسے آج تمام انبیاء اپنے اپنے مقام پر (برزخ میں) موجود ہیں۔ مگر عمل صرف نبوت محمدیہ کا جاری وساری ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ’’اگر آج موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی بجز اتباع کے چارہ نہ تھا۔ اسی طرح جب عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آسمان سے نازل ہوں گے تو قرآن پاک وحدیث شریف ہی کی اتباع وتبلیغ کریں گے۔‘‘
عہدۂ رسالت تو ان کو مل چکا ہے۔ جو کسی وقت سلب نہیں ہوسکتا اور ہم نے قرآن وسنت سے ثابت کر دیا ہے کہ نبوت ورسالت ختم ہوچکی۔ کسی شخص کو نئے سرے سے عہدۂ نبوت نہیں عطاء کیاجائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو آنحضرتﷺ سے پہلے مرتبۂ نبوت پر فائز ہو چکے ہیں۔ لہٰذا ان کی آمد سے خاتم النبیین کی ختم نبوت پر کوئی زد نہیں پڑتی۔
پس ختم نبوت کا مسئلہ کوئی جزوی یا فروعی مسئلہ نہیں ہے۔ ایمان واسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ بلکہ کفر واسلام میں حد فاصل ہے۔ جیسے سچے نبی کی تکذیب اور انکار کرنا کفر ہے۔ ایسے ہی کسی جھوٹے، کاذب کو نبی ماننا کفر ہے۔
یہ مسئلہ اتفاقی اور اجماعی ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیں:
۱… ’’فمن اظلم ممن کذب علی اﷲ وکذب بالصدق اذجاء ہ الیس فی جہنم مثوی للکافرین (الزمر:۳۲)‘‘ {اس سے بڑا ظالم کون ہے؟ جو خدا پر جھوٹ باندھے اور سچ کو جھٹلائے۔ جب کہ سچ اس کے پاس آگیا۔ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے؟}
۲… ’’ومن اظلم ممن افتریٰ علی اﷲ کذبا اوکذب بالحق لما جاء ہ الیس فی جہنم مثوی للکافرین (العنکبوت:۶۸)‘‘ {اس سے بڑا ظالم کون ہے؟ جو خدا پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے۔ جب اس کے پاس حق آگیا۔ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم نہیں؟}