ان آیات میں جیسے سچے نبی کی تکذیب اور انکار کرنے والے کو کافر کہا ہے۔ اسی طرح خدا پر جھوٹ باندھنے اور جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو کافر کہاہے۔
لہٰذا اس فرمان کی بناء پر مدعی نبوت کاذب کے کفر میں کوئی شک نہ رہا۔ یہ فرمان مرزائیوں کے کفر پر صریح اور قطعی دلیل ہے۔ اس دلیل کی ترتیب بصورت شکل اوّل پوری ہوئی۔
صغریٰ:
مرزا جھوٹی نبوت کا مدعی ہے۔
کبریٰ:
اور جھوٹی نبوت کا مدعی کافر ہے۔
نتیجہ:
صاف ہے کہ مرزا کافر ہے۔
دوسری طرز سے
صغریٰ:
مرزا اﷲ تعالیٰ کے نبی خاتم النبیین کا منکر ہے۔ (کیونکہ آپ کو خاتم النبیین نہیں مانتا)
کبریٰ:
اور سچے نبی کا منکر کافر ہے۔
نتیجہ:
یہ کہ مرزائی کافرہے۔
گذشتہ بیان سے شبہ ہوسکتا ہے کہ قادیانی مرزائی جو کہ مرزاقادیانی کی نبوت کاذبہ کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ تو کافر ہوا۔ مگر لاہوری مرزائی کو کافر نہیں کہنا چاہئے۔ کیونکہ وہ ختم نبوت کا قائل ہے اور مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتا۔ اس شبے کو دور کرنے کے لئے کئی دلائل ہیں۔
اوّل… امت محمدیہ کا متفقہ عقیدہ ہے اور احادیث نبویہ میں اس کی تصریح ہے کہ مسیح موعود نبی ہیں۔ مگر لاہوری مرزائی ان کی نبوت کا منکر ہے۔ اس بناء پر وہ بھی کافر ہے۔
دوم… امت محمدیہ کا اجماع ہے اور قرآن وحدیث اس پر متفق ہیں کہ آنے والے مسیح علیہ السلام ابن مریم ہیں۔ ایسے قطعیات کا منکر کافر ہے۔
سوم… مرزاغلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت میں شک نہیں۔ چنانچہ مرزامحمود قادیانی نے اپنی کتاب ’’حقیقت النبوۃ‘‘ میں ضرورت سے زیادہ مواد جمع کر دیا ہے۔ یہ لاہوری مرزائیوں کو بھی مسلّم ہے۔ وہ صرف اس کی تاویل کرتے ہیں کہ نبی سے مراد محدث ہے۔ لیکن محدث کی تشریح وہی نبی والی کرتے ہیں کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے جو دخل شیطان سے محفوظ ہوتی ہے اور انبیاء کی طرح وہ مامور ہوتا ہے۔ اس کا منکر مستوجب سزا ٹھہرتا ہے۔ پس محدث کی تشریح نبی والی ہوئی۔ تو معلوم ہوا کہ درحقیقت مرزائی دونوں گروہ مرزاقادیانی کو نبی مانتے ہیں۔ لاہوری اور قادیانی میں کوئی فرق نہ ہوا۔