{کیا تم اس پر خوش نہیں کہ تم میرے لئے ویسے بنو، جیسے ہارون، موسیٰ علیہ السلام کے لئے تھے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔}
حضرت موسیٰ علیہ السلام میقات ربی کے طور پر چالیس یوم ٹھہرے تھے اور اپنے بعد ہارون کو خلیفہ بناگئے تھے۔ نبیﷺ کو بھی غزوۂ تبوک میں تقریباً پچاس یوم مدینہ سے باہر رہنے کا اتفاق ہوا۔
اس واقعہ میں خلافت بعد وفات رسول اﷲﷺ کا اشارہ تک نہیں ہے۔ کیونکہ ہارون نے موسیٰ سے بہت پہلے وفات پائی تھی۔
۹… سیدنا حضرت علیؓ نبی کریمﷺ کو آخری غسل دے رہے تھے تو اپنی زبان سے یوں فرمارہے تھے۔ ’’بابی انت وامی لقد انقطع بموتک مالا ینقطع بموت غیرک من النبوۃ والانبیاء (نہج البلاغۃ ص۲۰۵)‘‘ {میرے ماں باپ آنحضرتﷺ پر قربان ہوں۔آنحضرتﷺ کی موت سے وہ چیز ختم ہوگئی جو اور کسی شخص کی موت سے ختم نہ ہوئی تھی۔ یعنی نبوت اور اخبار غیب اور آسمان سے خبروں کا آنا اب ختم ہوگیا۔}
قرآن وحدیث کی تصریحات سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد قیامت تک کسی قسم کی نبوت، ظلی، بروزی، تشریعی، غیرتشریعی کسی کو عطاء نہیں کی جائے گی اور اسی پر امت کا اجماع ہے۔ کتاب اﷲ اور حدیث رسول اﷲ کی موجودگی میں اس پر کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اسی لئے ایک صحابی بھی ایسا نہیں ہوا۔ جس کا یہ عقیدہ ہو کہ حضرت محمدﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت جاری ہے۔ ایک تابعی بھی ایسا نہیں گذرا جو آنحضرتﷺ کے بعد نبوت جاری رہنے کا قائل ہو۔ ایک تبع تابعی بھی ایسا نہیں گذرا جس کا یہ نظریہ ہو کہ احمد مجتبیٰﷺ کے بعد کسی کو عہدہ نبوت سے سرفراز کیا جائے گا۔ کوئی امام یا مجتہد بھی نبی اکرمﷺ کے بعد اجرائے نبوت کا قائل نہیں اور نہ ہی آج تک کوئی محدث یا فقیہہ امت میں ایسا ہوا جس نے لکھا ہو کہ رحمۃ اللعالمین کے بعد بھی کسی قسم کا عہدۂ نبوت کسی شخص کو عطاء کیا جائے گا۔
تمام قرآن مجید اور مجموعہ احادیث میں ایک آیت یا حدیث ایسی نہیں، جس میں یہ ذکر ہو کہ حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کے بعد کسی شخص کو نبی بنایا جائے گا۔ یا ظلی یا بروزی، غیرتشریعی نبوت کسی امتی کو ملے گی۔ ’’من ادعیٰ فعلیہ البیان بالبرہان‘‘