ذات پر انبیاء کا خاتمہ ہو گیا۔ یعنی اب کسی کو نئے سرے سے عہدۂ نبوت عطاء نہیں کیا جائے گا۔}
۴… ’’عن ابی امامۃؓ قال النبیﷺ فی خطبۃ الوداع، ایہا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم (رواہ ابن جریر وابن عساکر)‘‘ {ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے خطبۃ الوداع میں فرمایا تھا۔ لوگو! یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔}
۵… ’’روی احمد والترمذی والحاکم باسناد صحیح: عن انسؓ قال قال رسول اﷲﷺ ان النبوۃ والرسالۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی (ترمذی ج۲ ص۵۱، باب ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات)‘‘ {امام احمد، امام ترمذی اور امام حاکم نے صحیح اسناد کے ساتھ انسؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ: اب رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے۔ لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی۔}
۶… ’’عن ثوبانؓ قال قال النبیﷺ سیکون فی امتی ثلثون کذابون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی (ترمذی ج۲ ص۴۵، باب لا تقوم الساعۃ حتیٰ یخرج کذابون)‘‘ {نبیﷺ نے فرمایا۔ میرے امت میں تین شخص کذاب ہوںگے۔ ان میں سے ہر ایک کا یہ گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}
۷… ’’عن عقبۃ بن عامرؓ قال النبیﷺ لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب (الترمذی ج۲ ص۲۰۹، باب مناقب ابی حفص عمر بن خطابؓ)‘‘ {رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔}
سب جانتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نبی نہ تھے۔ لہٰذا ثابت ہوگیا کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی بھی نبی نہیں ہوسکتا۔ قیامت تک اب کسی کو عہدۂ نبوت سے سرفراز نہیں فرمایا جائے گا۔ (کیونکہ آپ کی نبوت عامہ اور کاملہ ہے)
۸… سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک میں نبیﷺ نے حضرت علیؓ کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ’’اما ترضیٰ ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی (بخاری ج۱ ص۵۲۶، باب مناقب علی بن ابی طالب)‘‘