ہیں۔ چوتھا اس لئے کہ آپ کے سب مقلد صحاح ستہ وغیرہ والوں کا یہی مذہب ہے۔
گویا آپ نے اپنی خاموشی سے سکوتی اجماع پر مہر تصدیق کر دی۔ (امام احمد مسند امام احمد ج۱ ص۳۱۸) ابن عباسؓ سے روایت ہے۔ ’’انہ لعلم للساعۃ‘‘ یہ عیسیٰ بن مریم کا قبل از قیامت نکلنا اور اترنا ہے اور دوسرا اس لئے کہ ان سے اعلیٰ یعنی امام اعظم کا یہی مذہب ہے۔ تیسرا اس لئے کہ آپ سے مخالفت اور تصریح وفات ثابت نہیں۔ بلکہ تصریح حیات ثابت ہے۔
امام مالکؒ آپ کا بھی یہی مذہب ہے۔
اکمال اکمال المعلم (شرح صحیح مسلم ج۱ ص۲۶۶) پر ہے۔ ’’فی العتبۃ قال مالک بین ان الناس قیام یستمعون لاقامۃ الصلوٰۃ فتغشاہم غمامۃ فاذا عیسیٰ قد نزل‘‘ یعنی عتبہ میں ہے کہ امام مالکؒ نے فرمایا کہ لوگ اس حالت میں کھڑے ہوںگے۔ اقامت نماز سنتے ہوںگے کہ اچانک ان کو ایک بادل ڈھانک لے گا۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام یقینا اس وقت اتریں گے۔
نوٹ: یاد رہے کہ یہ کتاب امام مالکؒ کی نہیں ہے۔ بلکہ امام عبدالعزیز اندلسی قرطبیؒ کی ہے۔ دیکھو (کشف الظنون ج اوّل ص۱۰۶،۱۰۷) اور دوسرا اس لئے کہ آپ سے اعلیٰ یعنی امام اعظمؒ کا یہی مذہب ہے۔ تیسرا اس لئے کہ آپ کے مقلدوں کا یہی مذہب ہے۔ ورنہ ضرور مخالفت کرتے اور وفات مسیح علیہ السلام کی تصریح کرتے۔ مگر یہاں تو حیات مسیح علیہ السلام کی تصریح موجود ہے۔ علامہ زرقانی مالکی شرح مواہب قسطلانی میں فرماتے ہیں۔ ’’فاذا نزل سیدنا عیسیٰ (ابن مریم) علیہ السلام فانہ یحکم بشریعۃ نبیناﷺ بالہام او اطلاع علی الروح المحمدی اوبما شاء اﷲ من استنباط لہا من الکتاب والسنۃ ونحو ذالک فہو علیہ السلام وان کان خلیفۃ فی الامۃ المحمدیۃ فہو رسول ونبی کریم علی مالہ لا کما یظن بعض الناس انہ یأتی واحداً من ہذہ الامۃ بدون نبوۃ ورسالۃ وجہل انہا لایرد لان بالموت کما تقدم فکیف بمن ھوحی نعم ھو واحدۃ من ہذہ الامۃ مع بقائہ علی نبوۃ ورسالۃ‘‘ {یعنی جبکہ عیسیٰ بن مریم اتریں گے آنحضرتﷺ کی شریعت کے موافق حکم صادر فرمائیں گے۔ بوجہ الہام یا اطلاع فیوض نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے یا جیسا کہ منظور خدا ہوگا۔ کتاب وسنت سے استخراج فرمائیں گے۔ پس حضرت مسیح علیہ السلام گو امت محمدیہ میں ایک خلیفہ ہوںگے۔ مگر وہ رسول اور نبی ہوںگے۔ جیسا کہ پہلے نبی اور رسول تھے۔ جس نے یہ اعتقاد کیا ہے کہ وہ اس وقت نبی اور رسول نہیں ہوںگے۔