اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کا اجماع تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں اور وہی بعینہ نازل ہوںگے۔ کیونکہ ایک مجمع تھا جس نے یہ حدیث سنی اور اگر آپ بحیات نہ ہوتے تو جھٹ کہہ دیتے کہ آپ تو مرچکے ہیں۔ پھر کیسے اتریں گے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ جن دس علامتوں کا آپ نے ذکر فرمایا۔ وہ سب خلاف عادت ہیں تو جب دس میں سے نو چیزیں باوجودیکہ وہ خلاف عقل ہیں۔ ہر مسلمان کو بلکہ مرزاقادیانی کو بھی تسلیم ہیں تو نزول بعینہ جو کہ خلاف عادت ہے۔ وہ کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا اور اتنی چیخ وپکار کی جاتی ہے۔
حضرت ثوبانؓ (کنزالعمال ج۷ ص۲۰۲) ’’ینزل عیسیٰ بن مریم عند المنارۃ البیضاء دمشق‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم جامع دمشقی کے مشرقی کنارے پر اتریں گے۔
(کیسان) عبدالرحمن بن ثمرہ (بجلی آسمانی جلد اوّل ص۴۹) ’’یعنی قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے سچا رسول بنا کر بھیجا کہ عیسیٰ بن مریم میرے خلفاء میں سے ہوگا۔‘‘
(بجلی آسمانی جلد اوّل ص۴۶) ’’رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ بن مریم اترے گا اور محمدﷺ کی تصدیق کرے گا اور دجال کو قتل کرے گا اور پھر قیامت ہوگی۔‘‘
(مجمع بن جاریہ، ترمذی ترجمہ اردو ج۲ ص۱۲۱، کنزالعمال ج۷ ص۲۰۲، مرقات ج۵ ص۱۹۸) آپ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرور دوعالمﷺ کو یوں فرماتے سنا کہ عیسیٰ بن مریم اتریں گے اور دجال کو دروازہ لد پر قتل کریں گے۔ واثلہؓ (کنزالعمال ص۱۹۸) (آپ روایت کرتے ہیں) (ج۷ ص۱۸۶) وہی دس نشانیاں اس حدیث میں ہیں جوکہ پہلے مذکور ہوچکی ہیں۔ (ابوشریحہ کنزالعمال ج۷ ص۱۸۵) وہی دس نشانیوں کو بیان ہے جو کہ اوپر گذریں۔ عروہ بن اویم اور انس بن مالک کا یہی مذہب ہے۔ (کنزالعمال ج۶ ص۶۲۶) یحییٰ بن عبدالرحمن الثقفی (درمنثور ج۲ ص۲۵) ’’یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم نے نکاح نہیں کیا۔ یہاں تک کہ آپ اٹھائے گئے۔‘‘
عاطب بن ابی بلتعہ (خصائص الکبریٰ ج۲ ص۱۲) بیہقی نے ان سے اخراج کیا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان میں اٹھا لیا ہے۔
سفینہ(درمنثور ج۵ ص۳۹۴) ’’یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اور عقبہ افیق کے پاس اتریں گے۔‘‘
اسی طرح سمرہ بن جندب اور عمرو بن عوف عمران بن حصلین، عائشہ صدیقہؓ وغیرہم رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم کا یہی مسلک ہے۔