مذہب یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک زندہ بجسدہ عنصری موجود ہیں اور قبل قیامت آسمان سے اتریں گے اور اسی طرح (مسند احمد جلد اوّل ص۳۱۷،۳۱۸، ابن کثیر ج۹ ص۱۴۴، درمنثور ج۶ ص۲۰، فتح البیان ج۸ ص۳۱۱،۳۱۲، ترجمان القرآن ج۴ ص۶۶، مواہب الرحمن ص۲۵،۱۴۴، مستدرک حاکم ج۲ ص۴۴۸، تفسیر ابن جریر ج۲۵ ص۴۸،۴۹)
(تفسیر درمنثور ج۶ ص۶۰) پر بھی حضرت ابن عباسؓ کا یہی مذہب ہے۔
ترجمہ: یعنی یہود کے ایک گروہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی والدہ کو گالی دیں۔ آپ نے بددعا کی جس سے ان کی صورتیں مسخ ہوگئیں۔ پس یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل پر اتفاق کیا تو اﷲتعالیٰ نے آپ کو خبر دی اور وہ آپ کو آسمان پر اٹھا لیا گا اور صحبت یہود سے پاک کر دیا۔
صحیح نسائی میں ہے۔ ’’عن ابن عباسؓ ان رھطاً من الیہود سبوہ وامہ فدعا علیہم فمسخہم قردۃ وخنازیر فاجتمعت الیہود علی قتل فاخبرہ اﷲ بانہ یرفعہ الیٰ السماء ویطہرہ من صحبۃ الیہود ابن ابی خاتم ابن مردویۃ قال ابن عباسؓ سیدرک اناس من اہل الکتاب عیسیٰ حین یبعث فیؤمنون بہ (فتح البیان)‘‘ یعنی ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے اس وقت اہل کتاب آپ کے ساتھ ایمان لائیں گے۔
اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ آپ نے جو متوفیک کی تفسیر ممیتک سے کی ہے۔ اس سے یہ امر ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کی موت زمانہ گذشتہ میں واقع ہوئی۔ ایک تو اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمی کی تصریح موجود ہے۔ جیسا کہ ابھی گذرا اور دوسرا اس لئے کہ ممیتک زمانہ گذشتہ پر دلالت کرتا ہی نہیں۔ جیسا کہ متوفیک نہیں کرتا۔ کیونکہ یہ اسم فاعل ہے جو کہ زمانہ پر وصفاً دلالت نہیں کرتا۔ اگر کسی قرینہ وشرط سے اسم فاعل زمانہ پر دلالت کرے بھی تو یہاں زمانہ استقبال پر ہی کرے گا۔ نہ کہ ماضی پرجس کے معنی یہ ہوئے کہ میں تجھے تیرے وقت میں مارنے والا ہوں۔ جیسا کہ تفسیر کشاف وغیرہ میں یہی معنی لکھا ہے اور نیز یہ صاف ہوا کہ جب کہ عبداﷲ ابن عباسؓ کا مذہب متوفیک کی ممیتک سے تفسیر کرنے سے وفات عیسیٰ علیہ السلام ثابت نہ ہوا۔ بلکہ آپ رفع جسمی اور نزول بعینہ کے قائل ہیں تو جس کسی نے اس تفسیر کو نقل کیا ہے۔ ان کا مذہب حیات مسیح علیہ السلام اور نزول بعینہ کا ہے۔ جیسا کہ ابھی آتا ہے۔ عبداﷲ بن نغفل!
(کنزالعمال ج۷ ص۱۹۹، حدیث نمبر۹۳، ۲۰)