فوت نہیں ہوئے۔ بلکہ آسمان سے اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے اور مدینہ منورہ میں مدفون ہوںگے۔
اسی طرح ایک اور روایت آپ ہی سے ہے۔ جو کہ (مسند امام احمد ج۶ ص۷۵) پر ہے۔ ’’فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ ثم یمکث عیسیٰ علیہ السلام فی الارض اربعین سنۃ اماماً عدلاً وحکماً مقسطاً‘‘ یعنی آپ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے۔ پس دجال کو قتل کریں گے۔ پھر زمین میں چالیس سال برابر امام عادل اور حاکم منصف ہوکر رہیں گے۔ اسی طرح آپ سے ایک اور روایت بھی ہے جو کہ (کنزالعمال ج۷ ص۲۶۷) پر ہے۔ ’’عن علی ابن ابی طالب قال لیقتلہ اﷲ تعالیٰ بالشام علی عقبہ یقال ما عقبہ رفیق لثلاث ساعات یمضین من النہار علیٰ یدی عیسیٰ بن مریم (کتاب الاشاعۃ ص۲۰۷)‘‘ یعنی آپ فرماتے ہیں کہ دجال کو اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے عقبہ امیق پر جو شام کے علاقہ میں ایک پہاڑی ہے۔ جس وقت تقریباً تین گھڑیاں گذر جائیں گی۔ قتل کرے گا۔
حضرت عمرؓ (کنزالعمال ج۷ ص۷۰۷) جب آنحضرتﷺ ابن صیاد کے پاس ایک جماعت صحابہؓ کے ساتھ تشریف لے گئے اور دجال کی کچھ علامتیں ابن صیاد میں پائیں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ یا رسول اﷲ آپ اجازت فرماتے ہیں کہ میں اس کو قتل کردوں۔ فرمایا کہ دجال کا قاتل عیسیٰ بن مریم ہے تو اس کا قاتل نہیں۔ (رواہ احمد عن جابر)
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ خلاصہ موجوداتﷺ اور جملہ صحابہؓ کا یہی مذہب تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام ہی اتر کر دجال کو قتل کریں گے اور مراد وہی مسیح ناصری صاحب کتاب (انجیل) آپ اور صحابہ کا مفہوم تھا۔ اس لئے کہ اگر آپ اور آپ کے صحابہ کا یہ مذہب ہوتا کہ مسیح علیہ السلام فوت ہوکر کشمیر میں مدفون ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کا خیال ہے تو آپ ہرگز نہ فرماتے کہ دجال کا قاتل عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ہے۔
۲… یہ کہ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر اور رفیع الشان صحابی کا جس کی فراست کمال کو پہنچ چکی تھی۔ آنحضرتﷺ سے یہ سن کر کہ دجال کو عیسیٰ علیہ السلام اتر کر قتل کریںگے۔ خاموش ہونا ایک زبردست دلیل ہے کہ آپ کا مذہب یہی تھا کہ آپ کا رفع الیٰ السماء جسمانی بحالت حیات ہوا اور اسی طرح نزول بھی جسمانی ہوگا۔ ورنہ آپ کہہ دیتے کہ یا رسول اﷲ! ایسا اعتقاد رکھنا کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت تک زندہ رہیں گے۔ ایک ناجائز خیال ہے۔ آپ کس طرح