فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آکر دجال کو قتل کریں گے۔ حالانکہ وہ فوت ہوچکے ہیں۔
۳… یہ کہ آپ کے علاوہ تمام صحابہؓ کا یہ سن کر کہ عیسیٰ علیہ السلام اتر کر دجال کو قتل کریںگے۔ خاموش رہنا اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ آپ کا یہ فرمانا بالکل برحق ہے۔ ورنہ کوئی تو ان میں سے یہ کہہ اٹھتا کہ یا رسول اﷲﷺ وہ تو فوت ہوچکے ہیں۔ اب کیسے اتریں گے اور اس میں آپ کی سخت ہتک ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو قیامت تک آسمان پر زندہ رہیں اور آپ زمین پر اور ان کو اتنی عمر دی جائے اور آپ کو اس کے عشر عشیر بھی نہیں۔شیخ اکبر محیی الدین عربیؓ اپنی کتاب مستطاب فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں اور یہ وہ حضرت ہیں جن کا صاحب کشف ہونا مرزاقادیانی کو بھی مسلم ہے۔ ’’حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت عمرؓ نے سعد بن وقاصؓ کی طرف پیغام بھیجا کہ نضلہ انصاری کو حلوان عراق کی جانب بھیجو تاکہ وہاں جاکر جہاد کرے۔ پس سعد بن وقاصؓ نے نضلہ انصاریؒ کو بہمراہ ایک جماعت مہاجرین کو ادھر روانہ کر دیا۔ ان لوگوں کو وہاں فتح نصیب ہوئی۔ بہت سا مال غنیمت ملا۔ جب واپس ہوئے تو مغرب کا وقت قریب ہوگیا۔ پس نضلہ انصاریؒ نے گھبرا کر سب کو کنارہ پہاڑ پر ٹھہرایا اور خود آذان دینی شروع کی۔ جب اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا تو پہاڑ سے ایک مجیب نے کہا کہ اے نضلہ! تو نے خدا کی بہت بڑائی کی۔ پھر نضلہ انصاری نے اشہد ان لا الہ الا اﷲ کہا تو اس مجیب نے کہا کہ اے نضلہ یہ اخلاص کا کلمہ ہے اور جس وقت اس نے اشہد ان محمد رسول اﷲ کہا تو اس نے جواب دیا کہ یہ اس ذات کا نام پاک ہے جس کی خوشخبری ہم کو عیسیٰ بن مریم نے دی تھی اور یہ بھی فرمایا کہ اس نبی کی امت کے اخیر میں قیامت ہوگی۔ پھر جب اس نے حی علی الصلوٰۃ کہا تو اس نے جواب میں کہا کہ خوشخبری ہے اس کو جس نے ہمیشہ نماز ادا کی۔ پھر جب اس نے حی علی الفلاح کہا تو اس نے جواب دیا کہ جس نے محمدﷺ کی اطاعت کی اس نے نجات پائی۔ پھر جب اس نے اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا تو مجیب نے وہی پہلا جواب دیا۔ جب اس نے لا الہ الا اﷲ پر آذان ختم کی تو مجیب نے جواب دیا کہ اے نضلہ تم نے اخلاص کو پورا کیا۔ تمہارے بدن پر خداوند کریم نے آگ کو حرام کیا۔ جب نضلہ آذان سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ اے صاحب! آپ کون ہیں۔ فرشتہ یا جن یا انسان۔ جیسے آپ نے اپنی آواز ہم کو سنائی ہے ویسے ہی اپنے آپ دیکھائے بھی۔ اس لئے کہ ہم خدا اور اس کے رسول اور نائب رسول عمرؓ بن الخطاب کی جماعت ہیں۔ پس اس وقت وہ پہاڑ پھٹ گیا اور اس میں سے ایک شخص نکلا۔ جس کا سر بہت بڑا چکی کے برابر تھا اور بال بالکل سفید تھے اور اس پر دو صوف کے کپڑے تھے اور ہمیں السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ کہا۔ ہم نے وعلیکم