اپنے ظاہری معنوں پر محمول ہونا خود مرزاقادیانی کو تسلیم ہے۔ اپنی کتاب (حمامتہ البشریٰ حاشیہ۵ ص۴۱تا۴۳، خزائن ج۷ ص۱۹۲) میں لکھتے ہیں۔ کیونکہ آنحضرت کے ایسے ارشاد کاتب اختلاف ہوسکتا ہے۔ جو وحی الٰہی اور موکد بہ حلف ہو اور قسم صاف بتلاتی ہے کہ یہ خبر ظاہری معنوں پر محمول ہے۔ نہ اس میں کوئی تاویل ہے اور نہ استثنائ۔ ورنہ قسم میں کون سا فائدہ ہے۔ تو ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ نے بھی چونکہ بہ حلف بیان فرمایا ہے اور کوئی استثناء نہیں فرمایا، لہٰذا وہ بھی اپنے ظاہری معنوں پر بلاتاویل محمول ہونا چاہئے اور وہ معنی یہی ہیں کہ وہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو کہ نبی تھے اور بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ وہی آئیں گے نہ کہ کوئی اور۔
(تفسیر جامع البیان ج۳ ص۱۸۳،۱۸۴، تفسیر ابن کثیر ج۲ ص۲۲۹،۲۳۰)
۹… (تفسیر درمنثور ج۲ ص۳۶) پر ہے۔ ’’قال الحسن قال رسول اﷲﷺ للیہود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیمۃ‘‘ {حضرت حسن بصریؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے یہود کو فرمایا کہ یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں اور ضرور وہ قیامت سے پیش تر تمہاری طرف دوبارہ تشریف لائیں گے۔}
۱۰… (کتاب المحلی ج۱ ص۹۷۸) پر ابن جرم لکھتا ہے۔ ’’عن ابن جریح قال اخبرنا ابو الزبیر انہ سمع جابر بن عبداﷲ یقول سمعت النبیﷺ یقول ولا تنزل طائفۃ من امتی یقاتلون علی الحق ظاہرین الی یوم للقیامۃ قال فینزل عیسیٰ بن مریم فیقول امیرہم تعال صل لنا فیقول الا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ اﷲ ہذہ الامۃ‘‘ {یعنی حضرت جابر بن عبداﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو یوں فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں سے ایک گروہ تاقیامت حق کے لئے لڑتا رہے گا اور غالب رہے گا۔ پھر فرمایا پس عیسیٰ ابن مریم اتریں گے۔ پس مسلمانوں کا امام کہے گا کہ آئیے نماز پڑھائیے۔ آپ فرمائیں گے نہ، تمہارے بعض ایک دوسرے پر امیر ہیں بوجہ شرافت اس امت کے۔}
اور یہی ابن جرم اپنی کتاب (الفصل ج۴ ص۱۸۰) پر لکھتا ہے۔ ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وقول رسول اﷲ علیہ وسلم فی الاثار المستندۃ الثابتۃ فکیف یستجیز مسلم ان یبثت بعدہ علیہ السلام نبیا فی الارض حاشاہ