بالوں والے ہوںگے اور ان کے ہاتھ میں ایک حربہ ہوگا۔ جس سے دجال کو قتل کریں گے۔ پس جب کہ دجال قتل ہو جائے گا لڑائی بند ہو جائے گی اور بالکل امن ہو گا۔ پس ایک آدمی شیر سے ملے گا وہ کچھ نہیں کہے گا اور سانپ کو پکڑے گا وہ ضرر نہ دے گا اور زمین پر اسی طرح انگوری آجائے گی جیسا کہ حضرت آدم کے وقت اگاتی تھی اور آپ کے ساتھ سب ایمان لائیں گے اور اس وقت سب لوگ ایک مذہب پر (یعنی اسلام پر) ہوںگے۔}
علامہ بیہقی کی کتاب (الاسماء ووالصفات ص۳۰۱) پر ہے: ’’ان اباہریرۃؓ قال قال رسول اﷲﷺ کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السماء فیکم وامامکم منکم‘‘ {بالضرور حضرت ابوہریرہؓ نے یوں فرمایا کہ حضور علیہ السلام نے یوں فرمایا۔ تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا۔ جب ابن مریم آسمان سے اترے گا تم میں، اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔}
ابن عساکر اور اسحق بن بشیر نے روایت کیا ہے۔ ’’عن ابن عباسؓ قال قال رسول اﷲﷺ فعند ذالک ینزل اخی عیسیٰ ابن مریم من السمائ‘‘ {عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ فرمایا آنحضرتﷺ نے کہ پس اس وقت میرا بھائی عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوگا۔}
نوٹ: ہر دو حدیث میں آسمان کا لفظ موجود ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا اپنی کتاب (حمامتہ البشریٰ حاشیہ ص۱۸، خزائن ج۷ ص۱۹۶) اور (حمامتہ البشریٰ ص۲۱، خزائن ج۷ ص۲۰۲) پر یا کسی مرزائی کا یہ کہنا کہ حدیث میں آسمان کا لفظ موجود نہیں ہے۔ محض اپنی زیادتی ہے۔ ہرگز درست نہیں ہے۔محض غلط ہے۔
صحیح مسلم شریف ج۱ ص۴۰۶ میں ہے: ’’یحدث عن ابی ہریرۃؓ عن النبیﷺ قال والذی نفسی بیدہ لیہلن ابن مریم بفج الروحاء حاجا اومعتمراً اویثنیہما‘‘ {یعنی حضرت ابوہریرہؓ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ البتہ ضرور گذرے گا ابن مریم روحاء کے راستے سے حج کرتے ہوئے یا عمرہ کرتے ہوئے یا دونوں۔} نوٹ: اس حدیث میں آنحضرتﷺ نے اپنا حلفیہ اور قسمیہ بیان فرمایا ہے جو کہ اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ مضمون اپنے ظاہری معنوں پر محمول ہے اور ہرگز قابل تاویل نہیں اور مضمون کا