میں موجود نہیں ہیں۔ بلکہ آسمان پر ہیں تو جواب درست ہے کہ یہ میری ڈیوٹی کا زمانہ نہیں ہے۔ ہاں جب وہ اتر کر قوم میں موجود ہوں گے تو ان سے کردار قوم سے متعلق باز پرس ہوسکتی ہے۔ ثابت ہوا کہ مسیح حیات ہیں۔
’’فاقوال کما قال العبد الصالح وکنت علیہم شہیدا فلما توفیتنی‘‘ یعنی بروز قیامت کردار قوم سے سوال پر میں وہی کہوںگا۔ جو کہ عبد صالح (حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں ان پر اس وقت نگہبان تھا۔ جب ان میں تھا اور جب تو نے… الخ) یہاں پر حضور علیہ السلام نے اپنے قصہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور ظاہر ہے کہ مشبہہ بہ میں وجہ شبہ، مشبہ سے اقویٰ ہوتی ہے اور حضور علیہ السلام کی توفی جو کہ مشبہ ہے۔ یوں ہے کہ آپ کی روح کو اٹھالیا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کی توفیٰ مشبہ بہ ہے۔ لہٰذا وہ اقویٰ ہونی چاہئے اور اس کی صورت یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی روح اور جسم پر دونوں سے ہو۔ یعنی جب آپ کو معہ جسم آسمان پر اٹھا لیا۔ ثابت ہوا مسیح زندہ ہیں۔
’’قال عیسیٰ بن مریم اللہم ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء تکون لنا عید الاولنا واخرنا وایۃ منک‘‘ {عیسیٰ بن مریم نے کہا اے پروردگار ہمارے لئے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار، تاکہ ہمارے اولین کے لئے اور ہمارے آخرین کے لئے عید ہو اور وہ تیری طرف سے ایک نشانی ہو۔ یہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے اولین اور اپنے آخرین کا ذکر کیا ہے اور ظاہر ہے کہ اولین وآخرین آپ کے وہ اسی وقت ہوسکتے ہیں کہ ان میں موجود ہوں۔ یعنی آپ کی حیات طیبہ کے دو دور ہیں۔ اوّل وآخر۔ دور اوّل کے ماننے والے اولین اور دور آخر کے ماننے والے آخرین ہوں گے۔ ثابت ہوا کہ آپ زندہ ہیں اور آسمان سے اتر کہ آخرین میں رونق افروز ہوںگے۔}
’’وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا‘‘ {اور بے شک وہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی علامت ہیں۔ پس اس میں تم ہرگز شبہ نہ کرو۔}
اس آیت کی توضیح میں ’’اقوال سلف‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں۔ ’’وانہ لعلم للساعۃ قال نزول عیسیٰ بن مریم (ابن جریر ص۲۵،۴۹، درمنثور ج۶ ص۳۰)‘‘
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں۔ ’’وانہ لعلم للساعۃ قال خروج عیسیٰ یمکث فی الارض اربعین سنۃ (درمنثور ج۶ ص۲۰)‘‘