اور یہ تقدیم وتاخیر جب کوئی مانع موجود نہ ہو۔ بلکہ سیاق وسباق اس کا معاون ہو تو حرج نہیں اور پھر جب کہ واؤ حرف عطف ہے۔ جو ترتیب کے لئے نہیں بلکہ معطوف علیہ اور معطوف کو جمع کرنے کے لئے آتی ہے تو اس میں قطعاً کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ دیکھئے قرآن میں ’’والسارق والسارقۃ‘‘ اور ’’والزانیۃ والزانی‘‘ وغیرہ میں واؤ موجود ہے۔ لیکن ترتیب کے لئے نہیں ہے۔
علامہ شوکانی ارشاد الفحول میں فرماتے ہیں۔ ’’الواو للجمع‘‘
اور (لسان العرب ج۲ ص۳۷۹) پر ہے۔ ’’ان الوا ویعطف بہا جملۃ علیٰ جملۃ ولاتدل علی الترتیب‘‘ بہر نہج قرآن حدیث کتب النحو وغیرہ سب سے تصریح ہے کہ واؤ محض عطف کے لئے ہے۔ نہ ترتیب کے لئے لہٰذا تقدیم وتاخیر کی تقدیر پر قرآن مجید کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ دیکھئے قرآن میں ’’آ لم‘‘ کے پہلے صفحہ ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک‘‘ موجود ہے۔ اگر واؤ ترتیب کے لئے ہو تو لازم کہ قرآن کا نزول تورایت وانجیل سے پہلے ہو۔ حالانکہ یوں نہیں ہے۔ مگر یاد رکھو کہ ابن عباسؓ سے گویہ تفسیر ’’انی متوفیک ای ممیتک قال ابن عباس (بخاری شریف)‘‘ میں مذکور ہے۔ مگر اس سے عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ صیغہ اسم فاعل کا ہے اور نحو کا بچہ بھی جانتا ہے کہ اسم فاعل میں زمانہ نہیں ہوتا تو اس سے زمانہ ماضی میں موت عیسیٰ پر دلیل لانا محض لاعلمی اور خوش فہمی ہے۔ اس کا صرف معنی یہ ہے کہ میں ہی تجھ کو مارنے والا ہوں۔ (نہ کہ یہود) اور مطلقاً موت عیسیٰ کا کوئی بھی منکر نہیں اور ہو کیسے سکتا ہے؟ جب کہ ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ موجود ہے۔ دوسرا یہ حدیث (ممیتک والی) ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں ایک راوی علی بن طلحہ ہے۔ سند اس کی یوں ہے۔ ’’حدثنی معاویۃ عن علی عن ابن عباسؓ‘‘ (حافظ ابن جریر طبری ج۳ ص۱۸۴) اور یہ ضعیف ہے۔ جیسا کہ (میزان الاعتدلال ج۲ ص۲۲۷، تہذیب التہذیب ج۷ ص۲۳۹، تقریب التہذیب ص۱۸۴) وغیرہ میں ہے اور اس حدیث کا بخاری میں ہونا اس کی صحت کا موجب نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بخاری میں انہی احادیث کی صحت کا التزام ہے جو کہ مرفوع ہیں نہ کہ تعلیقات اور موقوفات کا بھی جیسا کہ (فتح المغیث ص۱۹،۲۰، مقدمہ ابن الصلاح ص۳۰) ’’وبما تقدم تأید قول البخاری ما ادخلت فی کتابی ہذا الا ماصح… وھو الاحادیث الصیحۃ مستندۃ دون التعالیق والاثار الموفون۰ علی الصحابہ فمن بعدہم والادیث المتوجۃ بہا ونحوذالک‘‘