بہر، نہج روز روشن سے زیادہ ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ آسمان پر زندہ اٹھا لئے گئے اور قیامت سے پیش تر دوبارہ آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے اور حکم دیں گے کہ صلیب کو توڑ دو اور خنزیر کو قتل کر دو اور دجال کو قتل کریں گے اور عادل حکومت کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ!
قرآن مجید میں ہے: ’’اذ قال اﷲ یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ ثم الیّٰ مرجعکم فاحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون‘‘ {آپ اس وقت کو یاد کریں جب کہ فرمایا اﷲتعالیٰ نے اے عیسیٰ بے شک میں تجھے پورا پورا لینے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف (یعنی آسمان پر) اٹھانے والا ہوں اور تجھے پاک کرنے والا ہوں۔ ان لوگوں کی (سازشوں اور تہمتوں) سے جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے، اور جنہوں نے تیری پیروی کی ان کو تاقیامت (تیرے) منکروں پر غالب کرنے والا ہوں۔ پھر تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ پس (اس وقت) میں فیصلہ کروں گا۔ تمہارے درمیان (ان امور کا) جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔}
وجۂ استدلال
اس طرح ہے کہ یہاں متوفی کا لفظ وفا سے نکلا ہے اور وفیٰ کا اصل وضعی معنی اور حقیقی معنی ’’اخذ الشیٔ وافیاً‘‘ یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا کہ کچھ باقی نہ رہے۔ (تفسیر صاوی ج۱ ص۲۹۸ بر حاشیہ جلالین تفسیر جلالین ج۱ ص۲۹۸) ’’والتوفی اخذ الشیٔ وافیاً‘‘ یعنی توفی کسی چیز کو پورے اور کامل طور پر پکڑنے کو بولتے ہیں۔ (جامع البیان ص۱۱۱) پر ہے۔ ’’والتوفی اخذ الشیٔ وافیاً‘‘ توفیٰ کسی چیز کے پورے طور پر لینے کو کہتے ہیں۔ (ابو سعود ج۴ ص۳۳۳) ’’فان التوفی اخذ الشیے وافیاً‘‘ بلاشبہ تو فی کسی پورے طور پر لینے کو بولتے ہیں۔ (تفسیر فتح البیان ج۳ ص۱۳۳) میں ہے۔ ’’فلما توفیتی الیٰ السماء واخذتنی وافیاً بالرفع‘‘ یعنی توفیتنی کا مطلب یہ ہے کہ جب کہ تو نے مجھ کو پورے طور پر آسمان پر اٹھالیا۔ روح المعانی میں ہے۔ ’’فلما توفیتنی ای قبضتنی بالرفع الیٰ السمائ‘‘ اسی طرح (معالم ص۳۰۸، جمل ج۱ ص۶۵۸، بیضاوی ج۱ ص۲۱۹، درمنثور ج۱ ص۲۴۹، سراج المنیر ج۱ ص۴۰۵، مدارک ج۱ ص۲۴۱) وغیرہ تفاسیر معتبرہ میں ہے۔