ہی متعلق ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ معنی یہ ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھ کو پورا پورا یعنی روح مع الجسم ہر دو کو اٹھانے والا ہوں۔ ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے ہیں۔
نیز فرض کیجئے کہ توفی تمام معنی میں برابر اور ایک طرح پر استعمال ہوتی ہے۔ تو گویا توفی سب معنوں میں مشترک ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جو لفظ مشترک ہو یعنی اس کے متعدد معنی ہوں تو جب تک کسی معنی پر قرینہ نہ پایا جائے تو اس وقت تک اس کا کوئی معنی مراد نہیں لے سکتے اور ظاہر کہ قرآن وحدیث، اجماع سیاق سباق واقعات سب قرینہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک زندہ ہیں۔ لہٰذا توفی کا معنی مراد یہی رفع الیٰ السماء ہی ہوسکتا ہے۔
اسی طرح دلیل میں اگر ایسا لفظ لایا جائے جس میں کئی ایک احتمال نکل سکیں تو بفحوائے ’’اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال‘‘ پس اس آیت کریمہ سے وفات عیسیٰ علیہ السلام پر دلیل لانا قطعاً درست نہیں۔
تنبیہ
مفسرین کرامؒ کا اس آیت کریمہ کی تشریح وتفصیل میں ذرا سا نزاع ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک جماعت اس آیت میں تقدیم وتاخیر کی قائل ہے۔ یعنی لفظ میں گو متوفیک پہلے ہے۔ لیکن درحقیقت وہ پیچھے ہے۔ اصل عبارت یوں ہے۔ ’’رافعک الیّٰ ثم متوفیک‘‘ اور دوسری جماعت تقدیم وتاخیر کی قائل نہیں اور کتہی ہے کہ جیسے نظم قرآن میں لکھا ہوا ہے یہی صحیح ہے۔ موخر الذکر حضرات یعنی جو تقدیم وتاخیر کے قائل نہیں وہ معنی یوں بیان کرتے ہیں۔ مثلاً: ’’انی متوفیک ایٰ متمم عمرک اتوفاک فلا ترکہم حتیٰ تقتلوک بل انی رافعک الیٰ سمائی (کبیر ج۲ ص۶۸۹)‘‘
اسی طرح (فتح البیان ج۲ ص۴۹، کشاف ج۹، سراج المنیر ج۱ ص۲۰۶، خازن ج۱ ص۲۲۸) وغیرہ۔ ’’انی اجعلک کالمتوفی لانہ اذا رفع الیٰ السماء وانقطع اثرہ عن الارض کانہ کالمتوفی۰ انی متوفیک عن شہواتک وحظوظ نفسک۰ انی متوفیک ای عملک بمعنی مستوفی عملک ورافعک الیّٰ۰ متوفیک ای ورافعک الیّٰ‘‘
اور اوّل الذکر حضرات جو تقدیم وتاخیر کے قائل ہیں وہ حضرت ابن عباس، ضحاک، قتادہ، فرا وغیرہ بزرگ ہیں۔ جیسا کہ (درمنثور، تنویر المقیاس ج۱ ص۱۷۷، مدارک التنزیل ج۱ ص۱۲۶، مجمع البحار ج۳ ص۴۵۴) وغیرہ میں مذکور ہے۔