۱… یہ کہ آپ نے نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا۔ ۲… مہر۔
مہر والا معنی یہاں بن نہیں سکتا۔ کیونکہ اس صورت میں یہاں تین چیزیں چاہئیں۔
(۱)مہر۔ (۲)مہر لگانے والا۔ (۳)ایک جس پر مہر لگائی جاتی ہے۔
جب آپ مہر لگانے والے ہوئے تو خود مہر نہ ہوئے۔ حالانکہ دو قرائتوں میں آپ کو مہر کہا گیا ہے۔ پس یہ دونوں معنوں کے خلاف ہوا۔ اس لئے پہلا معنی مراد ہوگا۔ تاکہ تینوں قرائتوں کا مطلب ایک ہو جائے۔ یعنی پہلی دو قرائتوں کی رو سے آپ مہر ہیں اور مہر لگنے سے معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے آپ نبیوں کے ختم کرنے والے ہوئے اور یہ مہر خدا کی طرف سے لگائی گئی۔ اس لئے اﷲتعالیٰ مہر لگانے والا ہوا۔ ’’النبیین‘‘ کا الف، لام جنس یا استغراقی ہے۔ جو جملہ انبیاء ورسل پر حاوی ہے۔ کلام اﷲ کی یہ آیت اعلان کر رہی ہے کہ سیدنا ومولانا محمدﷺ کے وجود باجود پر نبوت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
یہ آیت نہایت مستحکم دلائل اور قطعی براہین کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خصوصیت ختم المرسلین کو واضح کر رہی ہے۔ ختم نبوت کا منصب اس کو شایان ہے۔ جو کمال دین اور اتمام نعمت کی بشارت سے بھی مبشر ہو۔
فرمایا: ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (المائدہ:۳)‘‘ {آج میں نے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا۔}
یہ ایک عجیب پیش گوئی ہے اور اس کے اندر عجیب طاقت من جانب اﷲ موجود ہے۔
ایران کو دیکھو وہاں ہزاروں سال تک متواتر سروش آسمانی کی آواز بیسیوں پاک سرشت بزرگوں کو سنائی دیتی رہی۔ ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ یہاں کروڑوں سال تک لاکھوں مہارشی ایسے ہوئے جن پر آکاش وانی کا پرکاش ہوتا رہا۔
بنی اسرائیل کے حالات پڑھو، جہاں بیک وقت دو دو چار چار نبی موجود پائے گئے۔ اب کیوں اپنی قوم اور اپنے ملک میں کسی کا نبی ہونا تسلیم نہیں کرتے۔
مصریوں اور چینیوں نے بھی سینکڑوں سال تک اپنے اندر نبوت ورسالت ہونے کے دعاوی کو بلند کیا۔ لیکن جب سے کلام اﷲ میں آیت کا اعلان ہوا ہے۔ ختم نبوت کا فرمان