دوسرے مقام پر فرمایا: ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما (احزاب:۴۰)‘‘ {محمد(ﷺ) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ (یعنی آں جناب کی نرینہ اولاد کوئی نہیں) لیکن وہ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور خدا سب کچھ جانتا ہے۔}
الف لام چار معنوں میں مستعمل ہے۔
۱…
سب اور تمام جیسے ’’الحمد ﷲ رب العالمین‘‘ {تمام حمد، اﷲ کے لئے ہے}
۲…
حقیقت اور جنس شے، اس کی مثال بھی ’’الحمد ﷲ‘‘ ہے۔ یعنی حمد کی حقیقت اور جنس خدا کے لئے ہے۔
۳…
معین شے۔ جیسے ’’فعصیٰ فرعون الرسول‘‘ فرعون نے معین رسول کی نافرمانی کی۔
۴…
غیر معین شے جیسے، ’’اکلہ الذئب‘‘ بھیڑیوں میں سے کسی بھیڑیے نے یوسف کو کھا لیا۔
آخری دو قسمیں تو خاتم النبیین میں مراد نہیں ہوسکتیں۔ چوتھی اس لئے کہ غیرمعین نبیوں کے خاتم ہونے کا کوئی مطلب نہیں اور تیسری قسم مراد ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ تعیین کے لئے کوئی قرینہ چاہئے۔ پس پہلی دو قسمیں مراد ہوں گی۔ معنی یہ ہوا کہ آپ تشریعی اور غیرتشریعی تمام انبیاء کے خاتم ہیں۔ جب کسی شئے کی جنس ہی ختم ہو جائے تو اصل شئے ہی ختم ہو جاتی ہے۔
ختم کی تین قرائتیں ہیں۔
۱… ’’خاتَم النبیین‘‘
۲… ’’خاتِم النبیین‘‘
۳… ’’ولکِن نبیاً خَتَمَ النبیین‘‘ (تفسیر مدارک)
عربی لغت میں خاتَم اور خاتِم کے دو معنی ہوتے ہیں۔
۱… آخری شئے۔ ۲… مہر۔
یہاں پہلا معنی مراد ہو تو مطلب واضح ہے کہ رسول اﷲﷺ آخری نبی ہیں۔ آپؐ کے بعد اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ اگر دوسرے معنی مراد ہوں تو مہر سے مراد ایسی مہر ہوگی جیسے کسی شئے کو بند کر کے اس پر مہر لگادی جاتی ہے۔ اس صورت میں بھی مطلب وہی ہوا کہ آپؐ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے اور تیسری قرائت اس کی مؤید ہے۔ کیونکہ ختم النبیین کے دو معنی ہیں۔