سنایا گیا ہے۔ اس وقت سے ان سب مذاہب وادیان نے بھی اپنے اپنے دروازوں پر قفل ڈال دئیے ہیں۔
مجوسی اب کیوں کسی شخص کو جائے اسپ وزرتشت کے اورنگ پر نہیں بٹھلاتے۔ آریاورت، اب کیوں آکاش وانی کا ایک حرف بھی نہیں سنتا۔
یہ سب قدرت الٰہیہ کا روشن اور بیّن کارنامہ ہے۔ جس نے نبیﷺ کو خاتم النبیین بنانے کے بعد تمام دنیا کے جملہ مذاہب کے دماغوں اور طبیعتوں سے بھی یہ بات نکال دی ہے کہ خود ان کے مذہب کے اندر بھی کسی کو پیغمبر، نبی اور اوتار کہا جائے۔ دنیا بھر کا یہ عمل فیصلہ یا میلان طبع بلکہ فطری وجدان ظاہر کرتا ہے کہ قدرت ربانی نے اس خصوصیت کی جو وجود اقدس نبویہ سے مخصوص ہے۔ کیسی زبردست حفاظت فرمائی۔ کوئی غیرمسلم یہ نہیں کہہ سکتا کہ نبیﷺ نے اپنی ذاتی توصیف کے لئے ایسا فرمادیا ہے۔
اوّل… اس لئے کہ دعویٰ کرنا آسان ہے۔ مگر زمان مستقبل پر حکومت کرنا دشوار ہے۔ یہاں تو چودہ صدیوں کا زمانہ اور مختلف ومتعدد مذاہب کا متفقہ رویہ اس کی تائید میں موجود ہے۔ جس شئے کی تائید میں خود نیچر ہوں وہاں تصنع کا کیا دخل رہ جاتا ہے۔
دوم… اگرنبیﷺ کو اپنا ذاتی فخر بھی قائم کرنا مقصود ہوتا تو حضور ایسا کہہ سکتے تھے کہ اپنے متبعین کو نبوت کے منصب سے ممتاز بناتے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر اپنے اتباع کرنے والے انبیاء کی شان اور تعداد کا اظہار کرتے۔ بعض مسلمان صوفیا کی نسبت زبان زد عوام ہے کہ انہوں نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اوّل تو ان روایات کی صحت مشکوک ہے۔ دوم اگر ثابت بھی ہو جائے کہ کسی شخص نے ’’انا الحق‘‘ بھی کہا۔ ’’سبحان ما اعظم الشانی‘‘ کہا۔ تب بھی یہ نتیجہ صاف نکلتا ہے کہ خدا بننا تو ان کو سہل نظر آیا۔ مگر نبی کہلانے کی جرأت وہ بھی نہ کر سکے۔ ایسے ہی لوگوں میں یہ مصرع بہت شہرت یافتہ ہے۔
باخدا دیوانہ باش وبا محمد ہوشیار
اب وہ احادیث درج کی جاتی ہیں جو زیرعنوان کی تفسیر میں نبیﷺ سے باسناد صحیح ثابت ہیں۔
۱… ’’عن ابی ہریرۃؓ ان رسول اﷲﷺ قال ان مثلی ومثلی الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من