الصالح یرفعہ‘‘ اور نیک عمل کو اﷲتعالیٰ اٹھا لیتا ہے اور معنی نہیں کہ اﷲتعالیٰ اپنے مکان کی طرف اٹھا لیتا ہے۔ کیونکہ وہ لامکان ہے۔ بلکہ معنی یہ ہے کہ اسی جگہ اور محل میں جو کہ اعمال صالحہ کے لئے اس نے مقرر کیا ہے۔ اٹھا لیتا ہے۔ جس کا نام علیین ہے اور حدیث میں ہے۔ (بخاری ج۱ ص۴۵۷) ’’عن ابی ہریرۃؓ عن النبیﷺ قال الملئکۃ یتعاقبون ملائکۃ باللیل وملائکۃ بالنہار ویجتمعون فی صلوٰۃ الفجر والعصر ثم یعرج الیہ الذین باترافیکم فیسالہم وھو اعلم بہم کیف ترکتم عبادی فقالوا ترکناوہم یصلون واتیناہم یصلون‘‘ یعنی حضرت ابوہریرہؓ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے آتے ہیں۔ کچھ رات کو اور کچھ دن کو اور نماز صبح اور عصر میں دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ پھر چڑھ جاتے ہیں طرف اﷲتعالیٰ کی وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گذاری۔ پھر اﷲتعالیٰ سوال کرتا ہے۔ حالانکہ وہ زیادہ جاننے والا ہے۔ کس حالت میں تم نے میرے بندوں کو چھوڑا تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ان کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھتے تھے۔ اس حدیث میں عروج الیٰ اﷲ سے عروج الیٰ السماء ہی مراد ہے۔ نہ کوئی معنی اور عروج الیٰ اﷲ اور رفع اﷲ کی ایک ہی صورت ہے اور (صحیح مسلم ج۱ ص۹۹) میں ہے: ’’یرفع الیہ عمل اللیل قبل عمل النہار‘‘ یعنی اﷲتعالیٰ کی طرف سے دن کے عمل سے پیش تر رات کے عمل اٹھائے جاتے ہیں۔ یہی معنی ہے جو کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ نہ یہ کہ اﷲتعالیٰ کا کوئی مکان ہے۔ اس کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔ بلکہ صاف طور پر یہ حدیثیں آیت مذکورہ کی تفسیریں ہیں اور مرزاقادیانی کو یہ بھی تسلیم ہے کہ رفع الیٰ اﷲ سے مراد یہی ہے کہ آسمان کی طرف اٹھانا اور محل مقربین میں پہچانا جس کو اعلیٰ علیین کہتے ہیں۔
(ازالہ اوہام ص۳۸۶، خزائن ج۳ ص۲۹۹) آیت ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں۔ رفع سے مراد روح کا عزت کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف اٹھائی جاتی ہے۔ (ازالہ اوہام ص۵۹۹، خزائن ج۳ ص۴۲۴) پر لکھتے ہیں کہ جیسا کہ مقربین کے لئے ہوتی ہے کہ بعد موت ان کی روحیں علیین تک پہنچائی جاتی ہیں۔
(ازالہ اوہام ص۲۰۴، خزائن ج۳ ص۲۳۳) پر لکھتے ہیں: ’’بلکہ صریح اور بدیہی طور پر سیاق وسباق قرآن مجید سے ثابت ہورہا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے فوت ہونے کے بعد ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔‘‘ اور نیز جب کہ رفع الیٰ اﷲ سے بقرائن خارجیہ الیٰ السماء مراد ہوگا۔ تو وہی