ترکیب میں مفید رفع منزلت کا بھی ہوتا ہے۔ پانچواں یہ کہ ایسی قیودوں کو بڑھانا خود ایک زبردست ثبوت ہے کہ رفع کا معنی حقیقی رفع روحی نہیں۔ ورنہ قیدوں کا زیادہ کرنا محض بیکار ہے۔ کیونکہ اصل اور وضعی معنی محتاج قرینہ اور کسی امر خارجی کا ہرگز نہیں ہوتا۔ چھٹا یہ کہ اگر اس قاعدہ اختراعیہ کو مان لیا جائے تو وہ قواعد جن کے بغیر قرآن مجید کا سمجھنا نہایت ہی دشوار اور متعذر ہے اور قرآن کریم کی فصاحت اور بلاغت کا علم سوا ان کے ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کو کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جن سے روز روشن کی طرح رفع جسمی ثابت ہوتا ہے۔
ساتواں یہ کہ یہ قاعدہ اختراعیہ اگر مان لیا جائے تو اس مثال سے ٹوٹ جاتا ہے۔ (صحیح بخاری جلد اوّل ص۵۴۹) میں ہے: ’’ثم رفعت الی سدرۃ المنتہی‘‘ {یعنی پھر میں سدرۃ المنتہیٰ کی طرف اٹھایا گیا۔}
دیکھئے یہاں صیغہ رفعت گو ماضی مجہول الفاعل ہے۔ لیکن یہ فعل ایسا ہے جس کا فاعل درحقیقت اﷲتعالیٰ ہی ہے۔ جیسا کہ خلقت گو ماضی مجہول الفاعل ہے۔ لیکن فاعل اس کا درحقیقت اﷲتعالیٰ ہی ہے اور مفعول بہ ذی روح (یعنی آنحضرتﷺ) ہیں اور صلہ بھی لفظ الیٰ ہے اور معنی مراد سدرۃ المنتہیٰ پر اٹھائے جانے کے ہیں۔ نہ کہ رفع مرتبہ گو بطور کنایہ اس رفع کو رفع مرتبہ اور تقرب لازم ہے۔ کیا کوئی مرزائی وغیرہ اس کے خلاف کہہ سکتا ہے؟ کہ اس سے رفع جسمی مراد نہیں ہے۔ بلکہ رفع سے مراد رفع روحانی ہے۔ ہرگز نہیں اور پھر اس کتاب کے خلاف جس کو مرزاقادیانی بھی بعد کتاب اﷲ اصح الکتب مانتے ہیں۔ آٹھواں اس لئے یہ قاعدہ اختراعیہ غلط ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ لفظ خلق کا جہاں فاعل اﷲ تعالیٰ ہو اور مفعول بہ ذی روح بجز حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آدم اور حوا علیہم السلام کے ہو۔ وہاں خلق سے مراد نطفہ سے پیدا کرنا ہے تو کیا اس سے خلق کا معنی نطفہ ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں بالکل غلط بلکہ دیکھا جائے گا۔ جہاں کہیں قرینہ اس امر پر قائم ہوا کہ نطفہ سے پیدا کیاگیا ہے۔ وہاں یہ مراد لیں گے نہ کہ ہر ایک جگہ ایسے ہی رفع کا لفظ جب قرائن خارجیہ اور سیاق سباق سے رفع جسمی مراد ہو۔ وہی لیں گے حاصل یہ کہ رفع کا معنی ہر جگہ رفع رتبی لینا گو قرائن اور سیاق وسباق اس کے مخالف ہوں۔ ہرگز جائز نہیں۔ ہاں جس جگہ قرائن وغیرہ سے رفع رتبی اور تقرب روحانی کے مخالف نہ ہوں۔ وہاں پر مراد لے سکتے ہیں۔ یعنی یوں خیال فرمایا جائے کہ بلحاظ قرائن وسیاق وسباق ہمیشہ رفع جسمی لیں گے اور ان کے بغیر رفع روحانی لے سکتے ہیں نہ کہ یہ جہاں رفع مستعمل بالیٰ ہوتا ہے اور فاعل اﷲتعالیٰ اور مفعول بہ ذی روح ہو وہاں رفع