الا ان یرفعہم‘‘ لوگ ان کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اﷲتعالیٰ انہیں عزت اور مرتبہ میں بڑھائے گا۔ کنزالعمال میں ہے: ’’فتوا ضعوا یرفعکم اﷲ‘‘ تواضع کرو اﷲتعالیٰ تمہارا مرتبہ بلند کرے گا۔ بخاری میں ہے: ’’رفع الیٰ السماء رفعہ ضد وضعہ ومنہ الدعاء اللہم ارفعنی واﷲ یرفع من یشاء ویخفض‘‘ یعنی رفع الیٰ السماء وضع کی ضد ہے اور اسی پر دعا ہے کہ اے اﷲ میرا مرتبہ بلند کر اور ذلیل نہ کر۔ اﷲتعالیٰ جس کو چاہتا ہے۔ بلند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے۔ پست کرتا ہے۔ یہ سب کی سب عبارتیں ایسی ہیں۔ جن سے ایک بھی ایسی عبارت نہیں جو کہ اس امر پر قطعاً دلالت کرے کہ رفع کا معنی حقیقی اور وصفی بس رفع مرتبی ہے۔ جو کچھ ثابت ہے وہ صرف یہ کہ رفع کا اطلاق رفع جسمی اور رفع مرتبی پر ہوتا ہے۔ نہ یہ کہ رفع کا معنی مرتبی وضعی اور حقیقی معنی ہے اور رفع سے رفع جسمی کبھی مراد لے بھی نہیں سکتے کہ اپنی طرف سے لغت میں قیاس کرنا ہے جو کہ بالکل ناجائز ہے اور پھر اس وقت جب کہ ہم نے بیان کر دیا ہے کہ لغت اور تفسیر میں اکثر استعمال معنی لکھے جاتے ہیں۔ کسی طرح بھی جائز نہیں کہ یہ کیا جائے کہ رفع کا معنی رفع مرتبی ہوتا ہے اور بس بلکہ حق یہ ہے کہ رفع کا اصل اور وضعی معنی یہی ہے کہ ایک چیزکا اوپر اٹھانا اجسام میں باعتبار حرکت اپنی اور انتقال معانی کے ہوگا اور معانی بلحاظ مقام اور پھر جب کہ قرائن خارجیہ قرآن پاک، حدیث شریف اور اجماع سیاق وسباق سے رفع سے رفع جسمی ہی مراد متعین ہو جائے تو دوسرا معنی یعنی رفع مرتبی مراد لینا ہرگز جائز اور مناسب نہیں۔
قاعدہ محدثہ اختراعیہ
بعض لوگ کہا کرتے ہیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی اور ان کے مرید بھی اسی خیال کے آدمی ہیں کہ لفظ رفع کا فاعل جب کہ اﷲتعالیٰ ہو اور صلہ اس کا لفظ الیٰ ہو اور مفعول۔ اس کا ذی روح ہو تو اس کا معنی سوائے تقرب اور مرتبہ کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا بل رفعہ اﷲ میں بھی بوجہ شرائط مذکورہ متحقق ہونے کے یہی تقرب الیٰ اﷲ مراد ہوگا۔ مگر یہ سب غلط ہے۔ کیونکہ اوّل تو یہ لوگ قواعد کی اور اصطلاحات کی قید کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ مگر جہاں کہیں ان کا مطلب ثابت ہو۔ دوسرا یہ قاعدہ کسی ایسی کتاب میں نہیں جو کہ قواعد اور اصطلاحات میں لکھی گئیں ہیں اور لغت میں ہونا کوئی مفید نہیں۔ کیونکہ لغت کا یہ وظیفہ ہی نہیں کہ وہ قواعد بیان کرے۔ تیسرا اس لئے کہ یہ دلیل ظنی استقرائی غیرمفید ہے جو کہ محض ظن کی مفید ہے نہ کہ یقین کی۔ چوتھا یہ کہ اس سے یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ رفع کا معنی ایسی ترکیب میں ہمیشہ رفع روحی ہی کا ہوا کرے گا۔ فقط اتنا ثابت ہوا کہ رفع ایسی