بڑی رپورٹ پادری صاحبان
’’یہاں تک کے باشندوں کی ایک بہت اکثریت پیری مریدی کے رجحانات کی حامل ہے۔ اگر اس وقت ہم کسی ایسے غدار کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں جو ظلی نبوت کا دعویٰ کرنے کو تیار ہوجائے تو اس کے حلقہ نبوت میں ہزاروں لوگ جوق درجوق شامل ہوجائیں گے۔ لیکن مسلمانوں میں اسے اس قسم کے دعویٰ کے لئے کسی کو تیار کرنا ہی بنیادی کام ہے۔ یہ مشکل حل ہو جائے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کے زیر سایہ پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ ہم اس سے پہلے برصغیر کی تمام حکومتوں کو غدار تلاش کرنے کی حکمت عملی سے شکست دے چکے ہیں۔ وہ مرحلہ اور تھا اس وقت فوجی نقطہ نظر سے غداروں کی تلاش کی گئی تھی۔ لیکن اب جب کہ ہم برصغیر کے چپہ چپہ پر حکمران ہیں اور ہر طرف امن وامان بحال ہوچکا ہے تو ان حالات میں ہمیں کسی ایسے منصوبے پر عمل کرنا چاہئے جو یہاں کے باشندوں کے داخلی انتشار کا باعث ہو۔‘‘
اقتباس از مطبوعہ رپورٹ کانفرنس وائٹ ہال لنڈن منعقدہ ۱۸۷۰ء دی آرائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا۔
ناظرین! ملاحظہ فرمائیں۔ ان الفاظ کو مکرر، سہ کرر مطالعہ فرمائیں کہ ہندوستان کی دینی اور ملکی اقتدار کی صورت کو ختم کرنے کے لئے دینی اور دنیاوی غداروں کا سہارا لیاگیا اور یہ کہ ظلی نبوت کے اجراء کو اس مقصد کے حصول کے لئے خاص اہمیت دی گئی اور یہ کہ ظلی نبوت اور ایسے ہی بروزی، مجازی، عرفی وغیرہ ساری نبوتوں کا محسن اعلیٰ باوا انگریز ہے۔ اﷲتعالیٰ کا یہ انعام ہرگز نہیں اور یہ کہ یہ ظلی نبوت انگریزی اقتدار کے سہارے پروان چڑھی اور چڑھ رہی ہے اور یہ کہ اس ظلی نبوت کو داخلی انتشار اور فتنہ وفساد وغیرہ کا سبب بنایا گیا اور یہ کہ اسی انگریزی ظلی نبوت کے انکار کو کفر والحاد اور اس پر ایمان لانے کو حصول جنت کا ذریعہ بنایا گیا اور یہ کہ جہاد مسلم جو کہ شرعاً تاقیامت جاری رہے گا۔ مسلمان کی ذات کو لازم ہے۔ کس قدر واضح ہے کہ مرزاقادیانی کی یہ نبوت انگریز کا عطیہ ہے۔ جو مقاصد مذکورہ بالا کی تکمیل کے لئے عطا ہوا۔ چونکہ اسی جہاد سے انگریز کی غاصبانہ مفسدانہ اقتدار کو خطرہ لاحق ہونے کا امکان تھا۔ اس واسطے جہاد کی ممانعت انگریز کے اشارہ پر اور اس کی رضا کے لئے اس قدر مرزاقادیانی نے کتابیں لکھ ماریں کہ پچاسوں الماریوں میں نہ سما سکیں۔ افسوس مرزاقادیانی نے حرص وہواسے مرتد ہونا پسند کیا اور دامن مصطفیﷺ کو ہاتھ سے چھوڑ دیا۔