۱۰… ’’ویبعث اﷲ رجلا من المسلمین فیسکتہ ویبکیہ‘‘ یعنی وہ مرد مؤمن دجال کو ساکت اور لاجواب کر دے گا۔ چنانچہ مولوی صاحب نے مرزاقادیانی کی ایسی پرزور تردید کی کہ وہ چلا اٹھے اور اشتہار آخری فیصلہ شائع کرنا پڑا۔
۱۱… ’’فیقول الدجال ارایتم ان قتلت ہذا ثم احییتہ ہل تشکون فے الامر (متفق علیہ)‘‘ یعنی جب دجال اس مرد مؤمن کے مقابلہ میں تنگ آجاوے گا۔ تو پھر یہ کہے گا لوگو یہ بتلاؤ۔ اگر میں اس شخص کو مار دوں پھر اسے زندہ کر دوں تو کیا پھر بھی تم میری صداقت میں کچھ لاؤ گے۔ اس فقرہ ’’ان قتلت ہذا ثم احییتہ‘‘ میں موت وحیات کے لفظ کا مذکور ہونا اس پر دلالت کر رہا ہے کہ یہاں اس حدیث میں دجال اور مرد مؤمن کے متعلق کوئی موت وحیات کا مضمون مذکور ہوا تھا۔
۱۲… حدیث کے الفاظ ’’ھل تشکون فے الامر‘‘ کہ اس کے بعد بھی تم میری صداقت میں شک لاؤ گے۔ اس سے یہ صاف معلوم ہورہا ہے کہ دجال اکبر اور رجل مؤمن کے درمیان موت وحیات کا سوال بطور معیار صدق وکذب واقع ہوگا کہ جو جھوٹا ہو۔ وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو۔ کیونکہ دو آدمیوں کے درمیان موت وحیات کا سوال بطور معیار صدق وکذب واقع ہونے کی یہی صورت ہوا کرتی ہے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب مولوی صاحب نے مرزاقادیانی کی پرزور تردید وتکذیب کی تو یہ چلاّ اٹھے اور اشتہار آخری فیصلہ شائع کیا۔ جس میں موت وحیات کو معیار صدق وکذب مقرر کیا اور خداتعالیٰ سے فیصلہ چاہا کہ ہم سے جو جھوٹا ہو وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو۔
۱۳… پھر دجال کا یہ کہنا کہ ’’ھل تشکون فے الامر‘‘ کہ اس کے بعد پھر بھی تم میری صداقت میں شک لاؤ گے۔ یہ اس کو ثابت کرتا ہے کہ یہ صورت فیصلہ دجال کی طرف سے پیش ہوگی اور وہی لوگوں کے سامنے اس کو بیان کرے گا۔ چنانچہ اسی طرح واقعہ میں ہوا کہ یہ صورت فیصلہ مرزاقادیانی نے پیش کی اور اسے آخری فیصلہ کے نام سے شائع کیا اور لوگوں کے سامنے بیان کیا۔ جو ظاہر بات ہے۔
۱۴… ’’ویتہلل وجہہ یضیحک (مسلم)‘‘ اور اس وقت مرد مؤمن کا چہرہ دمکتا ہوگا اور وہ خوشی سے ہنستا ہوتا اور یہ اس کا ہنسنا اور خوش ہونا اس امر کو ثابت کر رہا ہے کہ اس صورت فیصلہ میں وہ مرد مؤمن کامیاب ہوگا کہ جسے دجال نے پیش کیا تھا۔ یعنی اس کی زندگی میں