۲… اور ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ دجال اکبر مدعی نبوت ہوگا اور فرد واحد ہوگا۔ نہ کہ قوم اور اس کا مدعی نبوت ہونا اور فرد واحد ہونا اس حدیث سے بھی ثابت ہورہا ہے۔ ’’واﷲ لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلثون کذابا اخرہم الاعور الدجال (حاکم)‘‘
دجال اکبر اور مرد مؤمن کا مقابلہ اور ان کے درمیان آخری فیصلہ
’’قال رسول اﷲﷺ یخرج الدجال فیتوجہ قبلہ رجل من المؤمنین‘‘
’’فیخرج الیہ رجل (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ)‘‘ یعنی جب دجال کا خروج ہوگا تو اس کے مقابلہ میں ایک مرد مؤمن مستعد ہوکر نکل آوے گا۔ چنانچہ موافق خبر حدیث کے مرزاقادیانی کے مقابلہ میں مولوی ثناء اﷲ صاحب نکل آئے۔
۲… ’’ثم یأتی القوم فیدعوہم فیردون علیہ قولہ۰ ثم یدعوا رجلا ممتلیا شبابا (مسلم)‘‘ پھر دجال ایک قوم کے سامنے اپنے دعاوی کو پیش کر ے گا تو وہ اس کے دعویٰ کو رد کر دے گی اور اس کی تردید وتکذیب کرے گی۔ پھر اس کے بعد وہ مرد مؤمن کو مخاطب کرے گا اور وہ اس کے مقابلہ میں آوے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مولوی صاحب سے قبل علماء اسلام کی ایک جماعت مرزاقادیانی کی تردید وتکذیب کر رہی تھی۔ اس کے بعد آخر میں آپ مرزاقادیانی کے مقابلہ میں نکلے۔
۳… ’’ثم یدعوا رجلا ممتلیا شبابا‘‘ سے معلوم ہوا کہ مرد مؤمن دجال کی زندگی میں جوان ہوگا۔ مولوی صاحب مرزاقادیانی کی زندگی میں جوان ہی تھے۔
۴… وہ مردمؤمن دجال کی اس طرح تردید کرے گا۔ ’’یایہا الناس ہذا الدجال الذی ذکر رسول اﷲﷺ۰ اشہد انک الدجال الذی حدثنا رسول اﷲﷺ فی حدیثیہ (مشکوٰۃ)‘‘ کہ اے لوگو یہ شخص دجال ہے۔ جیسا کہ پیغمبرﷺ نے خبر دی ہے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے مرزاقادیانی کو صاف لفظوں میں دجال کہا اور حدیثوں سے ثابت کیا کہ یہ شخص بوجہ مدعی نبوت ہونے کے دجال ہے۔
۵… اس مرد مؤمن کا دجال کے مقابلہ میں حدیثیں پیش کرنا اور اسے احادیث کی رو سے دجال قرار دینا اس کو لازم ہے کہ وہ مرد مؤمن اپنے زمانے کا مشہور عالم اور مناظر اور محدث ہوگا۔ علم حدیث کا عالم ہوگا۔ چنانچہ مولوی صاحب ایسے ہی تھے۔