اور یہ جماعت اپنے مشن کے مطابق کام کر رہی ہے۔
کنری کی تاریخ میں کبھی کوئی مناظرہ نہیں ہوا۔ اس وقت جو مناظرہ مورخہ ۱۱؍نومبر ۱۹۸۱ء کو کنری قادیانی جماعت کے مربی مرزامختار احمد سے طے پایا تھا۔ اس کو سننے اور دیکھنے کے لئے مسلمانان کنری میں بہت جوش وخروش پایا جاتا تھا۔ لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس لئے قادیانی گروپ کا سرکردہ مربی مختار احمد دم دبا کر بھاگ گیا اور اسے ہمارے مبلغین حضرات سے بات کرنے کی جرأت اور ہمت نہ ہوئی۔ اس طرح قادیانیوں کے جھوٹ کا پول کھل گیا۔
روداد مناظرہ
عیدالاضحی سے چار دن قبل مولانا جمال اﷲ الحسینیؒ مبلغ مجلس تحفظ ختم نبوت سندھ کنری تشریف لائے ہوئے تھے کہ ایک صاحب مسٹڑ ایم جمیل ناز جو کنری شہر میں رہتے ہیں۔ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کنری کا قادیانی مبلغ شہر میں اپنی باطل تبلیغ جاری رکھے ہوئے ہے اور مناظرے کا چیلنج دیتا پھرتا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی نمائندہ ہم سے مناظرہ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ قادیانی مبلغ سے گفتگو کریں تو میں انہیں لے آتا ہوں۔ دوسرے دن علی الصبح ساڑھے چھ بجے ایم جمیل صاحب، مختار احمد مربی ومبلغ کنری کو مجلس تحفظ ختم نبوت کنری کے دفتر مولانا کے پاس لے آئے۔ دفتر میں مولانا اور قادیانی مربی ومبلغ کے درمیان پون گھنٹہ تک ہونے والے مناظرے کے شرائط کے بارے میں گفتگو چلتی رہی اور پھر متفقہ طور پر دفتر مجلس کنری میں یہ اقرار نامہ لکھا گیا جس پر فریقین کے دستخط ہیں۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
انا خاتم النبیین لا نبی بعدی
مجلس تحفظ ختم نبوت کنری سندھ ضلع تھرپاکر تاریخ: ۷؍اکتوبر۱۹۸۱ء
مختار احمد صاحب اور مولوی جمال اﷲ صاحبؒ کے مابین یہ موضوع قرار پایا ہے کہ اگر وفات مسیح ثابت ہو جائے تو مولوی جمال اﷲ، احمدیت قبول کر لیں گے اور اگر حیات مسیح ثابت ہو جائے تو مولوی مختار احمد صاحب احمدیت چھوڑ دیں گے۔ اس گفتگو کے مأخذ سب سے پہلے قرآن مجید اور حدیث اور اس کے بعد بزرگان دین اور مرزاغلام احمد وبشیر الدین وغیرہم کے