بسم اﷲ الرحمن الرحیم!گذارش واحوال
۱۹۴۷ء سے قبل انگریز کے دورحکومت میں قادیانیوں کو کنری (سندھ) اور اس کے گردونواح کے علاقہ میں ایک بہت بڑی جاگیر جس کا رقبہ ۹۰ہزارایکڑ پر مشتمل ہے۔ انگریز کی طرف سے بہت معمولی قیمت پر الاٹ ہوئی تھی اور اس رقم کی وصولی بھی معمولی اقساط میں کئی سال میں وصول کرنے کے احکامات انگریز کی طرف سے جاری کئے گئے تھے۔ اس وقت سندھ کے لوگ سادہ لوح اور دیہاتی زندگی بسر کرتے تھے۔ قادیانیوں نے مکاری اور چالاکی سے سیدھے اور سادہ لوح لوگوں کو بہکانا شروع کیا اور غیرمسلم طبقہ پر بھی اپنے قادیانی مذہب کی تبلیغ اسلام کے نام سے شروع کی۔
کنری اور گردونواح کی آمدنی سے ربوہ کا سالانہ بجٹ کا کافی حصہ اور اخراجات چلتے ہیں۔ ان کی کلی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ وہ زمین ہے جو ان کو انگریز نے معمولی قیمت پر ٹالہی اور کنری کے نواحی علاقوں میں الاٹ کی تھی۔
انہوں نے ۱۹۳۶ء کے قریب کنری کے مقام پر ایک کاٹن فیکٹری قائم کی جو اس وقت بھی سندھ کاٹن فیکٹری کے نام سے کام کر رہی ہے۔ اس وقت بھی اس کارخانہ میں تمام کارندے قادیانی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ صرف مزدور طبقہ ایسا ہے جس میں مسلمان بھی کام کر رہے ہیں۔ اس کارخانہ کے قیام سے کچھ ہی وقت قبل اس علاقہ میں ریلوے لائن بچھائی گئی تھی اور کنری کا ریلوے اسٹیشن قائم ہوا تھا۔
دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت کنری کا قیام ۱۹۵۴ء میں عمل میں آیا۔ اس وقت پسماندہ علاقہ میں ردمرزائیت پر کام کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ قادیانیوں کے اثرورسوخ اور ان کے وسیع جاگیرداری نظام کے باجود مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے کنری شہر میں مجلس تحفظ ختم نبوت کا دفتر قائم کیا اور خود اپنے دست مبارک سے دفتر کا افتتاح فرمایا اور دعا فرمائی۔ اس کے ساتھ ہی ایک مقامی جماعت کی تشکیل بھی کی گئی اور اعزازی عہدیداروں کا چناؤ گیا گیا۔ اس طرح کنری شہر میں باقاعدگی سے ردمرزائیت کے لئے کام شروع ہوا۔ جو اس وقت بھی جاری ہے