ہے۔ جب تک صریح کفر نہ پایا جائے۔ اس کی اجازت نہیں اور احادیث مذکورہ کا یہی منشا ہے اور حسین وغیرہ نے تو شروع سے ہی بیعت نہیں کی۔ کیونکہ ان کی نظر میں یزید کا انتخاب ہی صحیح نہ تھا۔ اس لئے وہ بیعت کے لئے مجبور نہیں کئے جاسکتے تھے۔
۳… اہل عراق واہل کوفہ جب حسینؓ کے حق میں تھے اور ان کی امارت چاہتے تھے۔ چنانچہ معاویہؓ نے وفات کے وقت یزید کو وصیت کی کہ اہل عراق تمہارے مقابلہ میں حسینؓ کو کھڑا کریں گے۔ مگر قرابت نبوی کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے درگذر کرنا۔ جب اتنی دنیا حسینؓ کے ساتھ تھی۔ بلکہ اہل مکہ کی بھی حمایت ان کو حاصل تھی تو ان حالات میں یزید کو حسینؓ کی بیعت کرنی چاہئے تھی۔ نہ کہ اس کا الٹ۔
۴… اختلاف جھگڑے کی صورت میں غیر جانبدار رہنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ اور معاویہؓ اور حضرت عائشہؓ کے جھگڑے میں کئی صحابہ غیرجانبدار رہے۔ ملاحظہ ہو بخاری ج۲ ص۱۰۵۳ مع فتح الباری وغیرہ اور حضرت علیؓ اگرچہ حق پر تھے۔ مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیر جانبدار وہی رہے جن کو اس استحقاق کا علم نہیں ہوا، اور یزید پر بھی لوگ متفق نہیں ہوئے تھے۔ ابھی جھگڑا چل رہا تھا۔ اس لئے کئی لوگ علیحدہ رہے اور بیعت نہیں کی اور عبداﷲ بن عمرؓ کا مذہب یہی ہے کہ اختلاف جھگڑے میں غیرجانبدار رہنا چاہئے۔ چنانچہ بخاری ج۲ ص۱۰۵۳ میں ہے کہ جب مکہ میں عبداﷲ بن زبیرؓ اور شام میں عبید اﷲ بن زیاد اور مروان بن حکم اور بصرہ میں قرأ برسر اقتدار ہوگئے تو عبداﷲ بن عمرؓ علیحدہ رہے اور مسند احمد میں ہے کہ ابوسعید خدریؓ نے عبداﷲ بن زبیرؓ سے بیعت کر لی۔ جب شام والوں نے مجبور کیا تو ان سے بھی کر لی۔ اس پر عبداﷲ بن عمرؓ ان سے ناراض ہوئے اور کہا کہ ایک طرف فیصلے ہونے کی انتظار کیوں نہ کی۔ پھر اس کے بعد جب لوگ قریباً عبدالملک بن مروان پر متفق ہوگئے تو پھر عبداﷲ بن عمرؓ نے عبدالملک بن مروان سے بیعت کر لی۔ (ملاحظہ ہو بخاری ج۲ ص۱۰۵۳)
اس بناء پر چاہئے تھا کہ عبداﷲ بن عمرؓ یزید سے بھی بیعت نہ کرے۔ جب تک لوگ اس پر متفق نہ ہوتے۔ مگر چونکہ معاویہؓ کی حیات میں یزید کی بیعت منظور کر چکے تھے۔ جس کی وجہ ایک یہ تھی کہ معاویہؓ کی زندگی میں یزید کے حالات اتنے مخدوش نہ تھے۔ جتنے بعد میں ہوگئے۔
دوسرے حضرت علیؓ کے بعد معاویہؓ کی خلافت پر سب لوگ متفق ہوگئے تھے اور یزید کی بیعت معاویہؓ ہی نے لینی شروع کی تھی۔ ان حالات میں بظاہر یہی توقع تھی کہ معاویہؓ کی کوشش کامیاب ہوکر یزید پر اتفاق ہوجائے گا۔ اس لئے عبداﷲ بن عمرؓ نے اور اکثر اہل مدینہ نے منظوری