اپنے فرائض سے ناواقفی یا غفلت ہے۔ اس لئے ہم قرآن وحدیث اور اسلامی روایات سے اس پر مختصر سی روشنی ڈالتے ہیں۔ تاکہ راعی اور رعیت اپنے فرائض کو سمجھیں اور ایسے حالات پیدا کرنے سے احتراز کریں جو ’’خسر الدنیا والآخرۃ‘‘ کا باعث بنیں۔ ’’واﷲ الموفق‘‘
تقرر امارت تین طرح سے ہوتا ہے۔ ایک انتخاب سے، خواہ انتخاب قوم کی طرف سے ہو۔ جیسے حضرت ابوبکرؓ کو خلافت کے لئے منتخب کیاگیا۔ یا مرنے والا اس کو منتخب کر جائے۔ جیسے حضرت عمرؓ کی خلافت، حضرت ابوبکرؓ کے انتخاب سے ہوئی اور حضرت عثمانؓ کی خلافت بھی اسی کے قریب تھی۔ کیونکہ حضرت عمرؓ نے وفات کے وقت خلافت چھ صحابہ کے سپرد کی تھی کہ یہ اپنے میں سے جس کو چاہیں خلیفہ منتخب کر لیں۔ عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ۔
یہ چھ صحابہ عشرہ مبشرہ سے ہیں۔ یعنی دس صحابہؓ جن کے نام لے کر رسول اﷲﷺ نے ان کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔ یہ چھ ان سے ہیں۔ آخر الذکر چار تو خلافت سے دستبردار ہوگئے۔ باقی حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ رہے۔ ان کو عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا تم اپنا معاملہ میرے سپرد کر دو۔ میں جن کو چاہوں تم میں سے خلیفہ بنادوں۔ انہوں نے سپرد کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے حضرت عثمانؓ کو منتخب کیا اور حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ کی خلافت قوم کے انتخاب سے ہوئی۔
چنانچہ کتب تاریخ وغیرہ میں ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنا حق فائق بتانے کے لئے حضرت معاویہؓ کو لکھا کہ مجھے ان لوگوں نے امیر بنایا ہے۔ جنہوں نے ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کو امیر بنایا تھا۔ یعنی مہاجرین اور انصار اور حضرت علیؓ کی فوقیت کے بعض اور وجوہ بھی ہیں۔ اس بناء پر حضرت معاویہؓ کی خلافت کا ابتدائی حصہ صحیح نہیں رہتا۔ البتہ حضرت علیؓ کی وفات کے بعد حضرت معاویہؓ کی خلافت صحیح ہوگئی۔ کیونکہ قریباً سب ان کی خلافت پر متفق ہوگئے اور حدیث میں بھی اس طرف اشارہ ہے۔
رسول اﷲﷺ نے حسنؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ میرا یہ بیٹا سید ہے۔ اس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔
چنانچہ اس پیش گوئی کا ظہور یوں ہوا کہ حضرت علیؓ کے بعد حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی اور حضرت حسنؓ بڑی جمعیت (چالیس ہزار کی فوج) کے ساتھ حضرت معاویہؓ کے مقابلہ میں آئے۔ قریب تھا کہ ان کے اور معاویہؓ کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔ مگر معاویہؓ کی طرف سے فیصلہ کے لئے قرآن مجید پیش کیاگیا۔ ادھر سے کیا دیر تھی۔ فوراً منظوری دے دی گئی۔